ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی اور علمی شعور کا گہرا اثر ان کی شخصیت پر نمایاں تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے آئی سی ایس مکمل کی۔ مولانا محمد علی جوہر کہتے ہیں:
تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر
شبِ فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوتے کیا ہو جوہر
کام کرنے کا یہی ہے تمھیں کرنا ہے یہی
مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما تھے۔ تحریک خلافت کے بانیوں میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحریک ترک موالات اور تحریک عدم تعاون میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
مولانا نے انگریزی اخبار “کامریڈ” اور اردو روزنامہ “ہمدرد” جاری کیا جو کہ ان کی ذہانت، انشاء پردازی اور بے خوف صحافتی مزاج کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مولانا کہتے ہیں:
اور کس وضع کی خوباں ہیں عروسانِ بہشت
ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی
مولانا محمد علی جوہر کی شاعری ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے جو مجاہدانہ ولولے، دینی شعور اور قومی غیرت سے بھرپور ہے۔ ان کی شاعری میں عشق حقیقی، حب الوطنی اور قربانی کے جذبات نمایاں ہیں۔ مولانا کی شاعری کا ایک اہم پہلو عشق الٰہی اور توحید ہے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے”
مولانا جوہر نے اپنے اشعار میں شہادت کا فلسفہ نہایت اثر انگیز انداز میں بیان کیا ہے جیسے:
“قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد”
وطن کی محبت اور آزادی کے جذبے کو انہوں نے اپنے کلام میں انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
“میرے لہو سے خاکِ وطن لالہ زار دیکھ
اسلام کے چمن کی خزاں میں بہار دیکھ”
مولانا نے اپنی شاعری میں سادہ اور پراثر زبان کا استعمال کیا ہے، جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ان کے اشعار میں استعارات، تشبیہات، اور کلاسیکی تراکیب کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے ۔مولانا محمد علی جوہر کی شاعری ان کے عہد کے سیاسی، سماجی، اور دینی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں نہ صرف انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ اسلامی شعائر کی حفاظت اور امت مسلمہ کی بیداری کا پیغام بھی موجود ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کہتے ہیں:
قید اور قید بھی تنہائی کی
شرم رہ جائے شکیبائی کی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت، ان کی صحافتی خدمات، اور شاعری ایک مکمل تحریک ہیں۔ ان کے اشعار آج بھی قومی غیرت، دینی حمیت، اور قربانی کے جذبات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ ایک سچا شاعر اپنے کلام کے ذریعے معاشرتی تبدیلی میں کس قدر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے لیے مولانا محمد علی جوہر کی شاعری سے اقتباس پیش خدمت ہے۔
٭
یہ نظر بندی تو نکلی ردِ سحر
دیدہ ہائے ہو ش اب جا کر کھلے
اب کہیں ٹوٹا ہے باطل کا فریب
حق کے عقدے اب کہیں ہم پر کھلے
فیض سے تیرے ہی اے قیدِ فرنگ
بال و پر نکلے قفس کے در کھلے
٭
قید اور قید بھی تنہائی کی
شرم رہ جائے شکیبائی کی
قیس کو ناقہ لیلیٰ نہ ملا
گو بہت بادیہ پیمائی کی
ہم نے ہر ذرے کو محمل پایا
ہے یہ قسمت ترے صحرائی کی
٭
یاد وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور
جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور
مست مئے الست کہاں اور ہوس کہاں
طرز وفائے غیر ہے اپنے چلن سے دور
گر بوئے گل نہیں، نہ سہی یاد گل تو ہے
صیاد لاکھ رکھے قفس کو چمن سے دور
٭
آئی ہو نہ زنداں میں خبر موسم گل کی
سننا تو ذرا شورِ عنادل تو نہیں یہ
مجنوں ہے تو کیا عشق کا احساس بھی کھویا
جس میں تیری لیلیٰ ہو وہ محمل تو نہیں یہ
٭
نہ اڑ جائیں کہیں قیدی قفس کے
ذرا پر باندھنا صیاد کس کے
سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے
چشم یہ خونابہ بار دیکھیے کب تک رہے
ہم نے یہ مانا کہ یاس کفر سے کمتر نہیں
پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے
یوں تو ہے ہر سو عیاں آمد فصل خزاں
جور و جفا کی بہار دیکھیے کب تک رہے
رسم جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
جب وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے
٭
یقیناً فصل گل میں پھر نکل بھاگا ہے زنداں سے
وہی شور سلاسل ہے، وہی دیوانہ آتا ہے
٭
آخر کو لے کے عرش سے فتح و ظفر گئی
مظلوم کی دعا بھی کبھی بے اثر گئی
اپنی ہی عمر نے نہ وفا کی وہ کیا کریں
ہم ہو چکے تو ان کو ہماری خبر گئی
کہنے نہ پائے وصل کی شب مدعائے دل
اک داستان غم تھی وہی تا سحر گئی
٭
یاں تو ہے نام عشق کا لینا
اپنے پیچھے بلا لگا لینا
شرطِ تحریر پہلے سن لے، پھر
خامے کو ہاتھ میں دلا لینا
نامۂ شوق ان کو شوق سے لکھ
غیر کو بھی مگر دکھا لینا
ایک ہی جام اور سرمستی
ساقیا، دیکھ میں چلا لینا
٭
کر گئی زندۂ جاوید ہمیں
تیغ قاتل نے مسیحائی کی
عقل کو ہم نے کیا نذرِ جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
٭
دے نقدِ جان تو بادۂ کوثر ابھی ملے
ساقی کو کیا پڑی ہے کہ یہ مے ادھار دے
رہرو تھا راہ عشق کا منزل کو پا لیا
اب اور کیا نشاں مری لوح مزار دے
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
٭
ستم سے کچھ نہ ہوا اب کھلا ستم گر پر
ابھی کچھ اور بھی باقی ہے قتل عام کے بعد
تمہیں کرو سر تسلیم پہلے خم پئے قتل
کہ سر جھکاتے ہیں سب مقتدی امام کے بعد
٭
جنس گراں تو تھی نہیں کوئی مگر یہ جاں
لائے ہیں ہم بھی رونق بازار دیکھ کر
ہم خاصگان اہل نظر اور یہ قتل عام
جور و ستم بھی کر تو ستم گار دیکھ کر
٭
ہو کچھ بھی مگر شور سلاسل تو نہیں یہ
جوہر کا تڑپنا دم بسمل تو نہیں یہ
ہے بات تو جب نزع میں تمکیں رہے قائم
مقتل ہے دلا، رقص کی محفل تو نہیں یہ
٭
کچھ بھی وہاں نہ خنجر قاتل کا بس چلا
روح شہید رہتی ہے نعش و کفن سے دور
شاید کہ آج حسرت جوہر نکل گئی
اِک لاش تھی پڑی ہوئی گور و کفن سے دور
٭
نہیں پالا پڑا قاتل تجھے ہم سخت جانوں سے
ذرا ہم بھی تو دیکھیں تیری جلادی کہاں تک ہے
گویا ہے لاش بھی تو تمہارے شہید کی
پیہم صدا بلند ہے ہل من مزید کی
ساقیا، دیکھ تشنہ کام نہ جائیں
ذبح سے پہلے کچھ پلا لینا
اللہ کے بانکوں کا بھی ہے رنگ نرالا
اس سادگی پہ شوخیِ خونِ شُہدا دیکھ
میرے لہو سے خاک وطن لالہ زار دیکھ
اسلام کے چمن کی خزاں میں بہار دیکھ
مرنے کو یوں تو مرتے ہیں ہر روز سینکڑوں
اپنے لئے پیام قضا ہو تو جانیے
کہتے ہیں نقد جاں جسے ہے عاشقوں پہ قرض
یہ قرض ہم سے جلد ادا ہو تو جانیے
شہدا و شرابِ خلد میں یہ چاشنی کہاں
کچھ خونِ دل سے بڑھ کے مزا ہو تو جانیے
قاتلِ جوہر کے ہاتھوں سے نہ چھوٹا حشر تک
کس بلا کا خون ظالم کی رگِ گردن میں تھا
بہارِ خونِ شہادت دکھا گئے جوہر
خزاں میں اور یہ رنگ شباب دیکھو تو
ہے قبل مرگ ہی اعدائے دیں کا واویلا
ابھی ہوا ہی کہاں ہے عذاب دیکھو تو
اور کس وضع کی خوباں ہیں عروسانِ بہشت
ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی
تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر
شبِ فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوتے کیا ہو جوہر
کام کرنے کا یہی ہے تمھیں کرنا ہے یہی
٭
جوہر نہ کیوں یہ رسم کہن زندہ کر چلیں
دار و رسن کے گر چہ نہ ہوں بانیوں میں ہم
اے مسیحا اس مرض سے کون چاہے گا شفا
دار پر موت آئے اس کی بھی کوئی تدبیر ہے
کیا عشق نا تمام کی بتلاؤں سر گزشت
دار و رسن کا اور ابھی انتظار دیکھ
پاداش جرم عشق سے کب تک مفر بھلا
مانا کہ تم رہا کیے دار و رسن سے دور
٭
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو کوئی آرزو
باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
٭
منصور
یہ بھی کیا پیروی حق ہے کہ خاموش ہیں سب
ہاں انا الحق بھی ہو، منصور بھی ہو، دار بھی ہو
جاں فروشی کے لئے ہم تو ہیں تیار مگر
کوئی اس جنس گرامی کا خریدار بھی ہو
کشتوں کو تیرے کس نے کیا ہے سپرد خاک
ان میتوں کے وا سطے گور و کفن کہاں
سنتے ہیں یہ بھی ایک بزرگوں کی رسم تھی
اس دور اعتدال میں دار و رسن کہاں
سن لیجے خلوتوں میں انا الحق کا ادعا
سولی پہ چڑھ سنائے وہ اب نعرہ زن کہاں
٭
حسین و کربلا
پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں وہی پیغامِ قضا میرے لئے ہے
کہتے ہیں لوگ ہے رہِ ظلمات پر خطر
کچھ دشت کربلا سے سوا ہو تو جانیے
جب تک کہ دل سے محو نہ ہو کربلا کی یاد
ہم سے نہ ہو سکے گی اطاعت یزید کی
بیتا ب کر رہی ہے تمنائے کربلا
یاد آ رہا ہے با دیہ پیمائے کربلا
بُنیادِ جبر و قہر اشارے میں ہل گئی
ہو جائے کاش پھر وہی ایمائے کربلا
رو ز ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ ہی سودائے کربلا
فرصت کسے خوشامِد شمر و یزید سے
اب ادعائے پیروی پنجتن کہاں
ماتم شبیر ہے آمد مہدی تلک
قوم ابھی سوگوار دیکھیے کب تک رہے
ہم عیش دو روزہ کے بھی منکر نہیں لیکن
ایمائے شہ کرب و بلا اور ہی کچھ ہے
خود خضر کو شبیر کی اس تشنہ لبی سے
معلوم ہوا،آب بقا اور ہی کچھ ہے
تشنہ لب ہوں مدتوں سے دیکھیے
اک درِ مے خانۂ کوثر کھلے
چاک کر سینے کو پہلو چیر ڈال
یوں ہی کچھ حالِ دل مضطر کھلے
لو وہ آ پہنچا جنون کا قافلہ
پاؤں زخمی خاک منہ پر سر کھلے
رونمائی کے لئے لایا ہوں جاں
اب تو شاید چہرۂ انور کھلے
٭
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے
حُورانِ بہشتی کی طر ف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صِلا میرے لئے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانے میں بپا میرے لئے ہے
سرخی میں نہیں دستِ حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخیِ خونِ شہدا میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہو ں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے
اے شافعِ محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
اللہ کے رستے ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لئے ہے
Leave a Reply