Today ePaper
Rahbar e Kisan International

وہ تین کرسیاں

Articles , Snippets , / Sunday, October 19th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
بات تو کچھ خاص نہ تھی ،جب دل و جان سے پیارے، محبت کے اونچے مینارے، پیار و وفا کے گوشوارے ہی نہ رہے تو ان مادی اشیا ان بے جان چیزوں کا تو ذکر کرنا ہی فضول ہے، مگر ایسا ہے ناں کہ یہ چیزیں بھلے بے جان ہی کیوں نہ ہوں، ان کی ہمارے پیاروں سے نسبت انھیں خاص ہی نہیں، خاص الخاص بنا دیتی ہے، ہماری اپنے پیاروں کی چیزوں سے جانے انجانے میں جذباتی وابستگی ہوتی ہے، مسلمان اپنے جانے والوں کی چیزوں سےاس لیے بھی زیادہ جڑے ہوے ہوتے ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام انھیں باقی تمام معاشروں سے زیادہ اپنے پیاروں کے قریب تر کر دیتا ہے، اور چونکہ وارثت اگلی نسل کو منتقل ہو جاتی ہے تو ہمیں، اپنے پیاروں کے سامان کے ساتھ ان کی چیزیں بھی ملتی ہیں، اور ہم انھیں پوری عقیدت اور احترام سے استعمال بھی کرتے ہیں، ہاں ہندوازم کے ماننے والے مرنے والوں کی چیزیں جلد از جلد بانٹ کر ان سے پیچھا چھڑانے کو بہتر سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اپنے پیاروں کی ساری چیزیں سنبھال کر رکھتے ہیں اور کچھ لوگ یاد کے طور پر چند چیزیں جیسے، عینک، گھڑی یا تصاویر وغیرہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں. یادوں کے اس دریچے میں مجھے آج اس لیے بھی جھانکنا پڑا کہ میں ایک بھرے پرے گھر کی سب سے بڑی بیٹی، جس سے چھوٹی تین بہنیں اور دو بھای، بڑے مان سے بابا کی حویلی میں ماں کی ممتا کے جھولے میں زندگانی بتا رہے تھے. ہمیں واقعی میں نہ پتا تھا کہ دکھ کس چڑیا کا نام ہے، چودہ میی کا روشن دن طلوع ہو کے ہم سب گھر والوں کے بخت پہ کالک پھیر جاتا ہے، ہمارے بابا جانی جو کسی رشتہ دار سے ملنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں ایک تیز رفتار ٹرک کی اندھی غفلت کا شکار ہو کر موقع پر ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں، چاروں بہنیں شادی شدہ اور دونوں بھای کنوارے، والدہ اس ناگہانی صدمے کو سہار نہیں پاتیں اور کچھ عرصے بعد ہی واپسی کا سفر باندھ کے بابا کے پاس چلی جاتی ہیں، لاڈلے بھاییوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں، آنے والیوں کو گھر سامان وراثت سے بھرے ہوے اور لوگوں سے خالی ہی ملتے ہیں اور کیا چاہیے آج کل کی نیی نویلی بیاہی ہوی لڑکیوں کو، سس نہ ننان تے بیبی آپے ای پردھان، تو بیبیوں نے آتے ہی اپنے اپنے گھر بھی سنبھال لیے، سامان بھی سنبھال لیے اور بندے تو پہلے ہی ان کے پلو سے بندھ چکے تھے، اسلام آباد والی بہن چونکہ بابا جانی کی چہیتی تھی تو اس نے بڑیے بھای سے بابا جانی کا ایرانی قالین یاد کے طور پہ مانگ لیا، بڑی بھابھی کو اس چیز کا اتنا دکھ ہوا کہ اس نے بجاے قالین اپنی نند کو دینے کے چھت پہ. بے آسرا رکھ چھوڑا، سردیوں کی چھٹیوں پہ جب نند جی آییں اور بھای سے قالین کی بابت پوچھا، قالین کی ڈھنڈیا مچی تو وہ بابا کی نشانی موسم کی گرمی سردی سہہ سہہ کر لیرو لیر ہو چکا تھا، بابا جانی کی اچانک حادثاتی موت نے ہمیں بہت ہی آزردہ کر دیا تھا میں نے بابا جانی کے ایصال ثواب کے لیے گھر کے باہر ایک الیکٹرک واٹر کولر لگوایا تھا، چھوٹی بھابی نے آتے ہی وہ الیکٹرک واٹر کولر جو ابا جان کی بخشش کے لیے راہ چلتے مسافروں اور غریب غربا کی پیاس بجھانے کے لیے لگوایا تھا؛ غایب کروا دیا، چلو زندہ لوگوں سے تو دشمنی نباہنی اور حسد کرنا بنتا ہے یہ مرنے والوں سے کس قسم کی دشمنی اور حسد؟؟؟؟
خیر چونکہ امی ابا آگے پیچھے ہی چلے گیے اور بہنیں سب اپنے اپنے گھروں میں خوش باش تھیں تو پیچھے سے آنے والی بھابیوں نے ہمارے والدین کی چیزوں کی، مال مفت دل بے رحم کی طرح آس پاس کے لوگوں میں تحائف کے نام پہ خوب بندر بانٹ کی، ملتانی صوفے، پتھر کے ڈنر سیٹ، اماں کے سارے بستر، ابا کے امپورٹڈ کوٹ، ایرانی کمبل، چنیوٹی صوفے، شیشم کی لکڑی کا بیڈ اللہ جانے کہاں چلے گیے، آبای زمین کا بٹوارہ تو جیسے ہوا سو ہوا، مجھے وہ تین لوہے کی کرسیاں نہیں بھولتیں، تین تو نہیں جی پوری چھ تھیں، جن پہ ہم سب بیٹھ کر لان میں شام کی چاے پیتے تھے اماں کے بنائے ہوے گرم گرم خستہ پکوڑے کھاتے تھے اور ابا جی سے مزے مزے کی تاریخی کہانیاں بھی سنتے تھے، کیا شاہی زمانے تھے، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم اپنے بابا کے آنگن سے نہ لوٹ کے آنے والے پنچھیوں کی طرح اڑ جاییں گے اور یہ بھی کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ چھ کرسیاں بھی کبھی بٹوارے کی نذر ہو کر تین بڑے بھای اور تین چھوٹے بھای کی طرف رہ جاییں گی، کیا بٹوارہ اتنا ظالم، سنگدل اور بے حیا ہوتا ہے، نہ بڑے بھائی کو حیا آی نہ ہی چھوٹے کو، نہ ہی بڑے بھای کا ظرف تھا نہ ہی چھوٹے بھای کا، کوی ایک بھی بندے کا پتر ہوتا تو دل بڑا کر کے کہہ ہی دیتا کوی بات نہیں ویرا تو رکھ لے ساری کی ساری ہم بچھڑ جاییں مجبوری ہے یہ نمانی تو ایک ساتھ ہی جچتی ہیں ناں، میں کملی پہلے ہی شیداین تھی کبھی چاچے طیفے کے گھر اپنے چنیوٹی صوفے دیکھ کے آہیں بھرتی تو کبھی ماسی صفوراں کے گھر اپنی ماں کا شیشم کا بیڈ دیکھ کے آنکھیں لال کر لیتی اور ان تینوں کرسیوں کے وچھوڑے پہ تو میں ان چھ کی چھ کرسیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال، ان سے دکھ سکھ بھی کرتی اور ان کی جدای پہ انھیں تسلی بھی دیتی، کبھی ایک بھای کے گھر تو کبھی دوسرے کے گھر، چھوٹی بھابھی کو تو بڑے بھای سے کچھ خدا واسطے کا بیر ایسے بھی تھا کہ انھیں زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی ابھی چند دن پہلے اس جنم جلی نے وہی لوہے کی تین معمولی کرسیاں بختاں ماچھن کو تحفتاً دے کر نہ صرف ہم بہنوں اور بھای کی دل آزاری کی ہے بلکہ ان چھ کرسیوں کے ہجر کو بھی جاوداں کر دیا ہے، جن کے دکھ سکھ سانجھے تھے، جہاں ہم چھ بہن بھائی اپنے پیارے والدین کی چھپر چھایا تلے بیٹھ کے زندگی کی جنت کے مزے لیتے تھے.انھیں چھوٹی بھابی کے حد سے بڑھے ہوے جلاپے کی آگ نے بجاے بڑے بھای کو تین کرسیاں تحفے کے طور پہ دے دیتی اور اپنے خاندانی ہونے کا ثبوت دیتی اس نے تین کرسیاں اس ماچھن کو دے دیں، جو انھیں کوڑیوں کے بھاو ردی میں بیچ دے گی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. Naureen 1@clooud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International