تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
پانامہ کینال ایک آبی گزرگاہ ہے جس سےتجارتی بحری جہاز گزرتے ہیں۔یہ قدرتی راستہ نہیں بلکہ انسانوں کا بنایا ہوا ایک آبی راستہ ہےاوراس کی لمبائی 82 کلومیٹر ہے۔اس کینال کو بناتے ہوئےبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔موسمی اثرات اور وبائی بیماریوں، جیسے ملیریا وغیرہ سےبہت سی اموات بھی ہوئیں اور ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔اخراجات بھی بہت زیادہ آئےلیکن اس کی تکمیل کے بعد فائدہ بھی بہت زیادہ موصول ہو رہا ہے۔اس کینال کا کنٹرول پانامہ کے پاس ہےاوراس کے بارے میں 1977 میں امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا،جس کی وجہ سےپا نامہ کینال کا کنٹرول پانامہ کے پاس آیا۔پانامہ کینال نےبہت سے راستے مختصر کر دیے۔اس کو بحراوقیانوس(اٹلانٹنک)اور بحرالکاہل(پیسیفک)کو ملانے کے لیےبنایا گیاتھا۔اس راستے سے گزرنے والے جہازوں سےپانامہ فیس وصول کرتا ہےاور یہ فیس سالانہ اربوں ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔جس وقت اس کینال کا کنٹرول پانامہ کے حوالے کیا گیا تھا شاید اس وقت اتنے زیادہ منافع کےتوقع نہیں تھی یا کوئی اور مسائل تھے۔اس کینال کے ذریعےتجارتی جہازوں کے علاوہ فوجی سازو سامان لے جانے والے جہاز بھی گزرتے ہیں۔اس کینال کی وجہ سے شمالی امریکہ سے بحراوقیانوس کی طرف جانےاور آنے والےبحری جہازوں کا راستہ گیارہ ہزار کلومیٹر تک کم ہو جاتا ہے۔امریکہ کے مشرقی اور مغربی کناروں کے درمیان بھی فاصلہ کم ہو جاتا ہے۔اس کینال کی وجہ سے نیویارک اور سان فرانسسکو کی بندرگاہوں کا درمیانی فاصلہ بھی بیس ہزار کلومیٹر تک کم ہو جاتا ہے۔یوں وقت کےساتھ غیر معمولی ایندھن کی بھی بچت ہوتی ہے۔یہ کینال بہت بڑے زر مبادلہ کا ذریعہ ہے۔
اس کینال کی طرف دنیا بھر کی توجہ ٹرمپ کے بیانات کے بعد ہوئی۔ٹرمپ نے دعوی کیا تھا کہ ہم دوبارہ پانامہ کینال حاصل کریں گے۔پانامہ کے صدر نے کہا تھا کہ پانامہ کینال کا ایک ایک انچ ہمارا ہےاور ہم کسی کو نہیں دیں گے۔اب لگتا ہےکہ امریکی صدر کی دھمکیاں اثر دکھا رہی ہیں۔اس کوہانگ کانگ کی کمپنی سی کے ہچیسن ہولڈنگزنے امریکی سرمایہ کاری فرم بلیک راک کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سی کےہچیسن 1997 سےپانامہ کینال کی بندرگاہوں کو اپریٹ کر رہی ہے۔سی کےہچیسن جوہانگ کانگ کے ایک ارب پتی کاروباری شخص لی کاسنگ کی کمپنی ہے۔اگرچہ سی کےہچیسن چینی حکومت کی ملکیت نہیں ہے لیکن اس کا ہیڈ کوارٹر ہانگ کانگ میں ہونے کی وجہ سے یہ چینی مالیاتی قوانین کے تحت کام کرتی ہے۔اب جو امریکی کمپنی سے معاہدہ ہونے جا رہا ہے اس کےلیے پانامہ حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی تجارتی جہازوں سےزیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے،اگر ان محصولات پر نظر ثانی نہ کی گئی تواس کینال کا کنٹرول امریکہ دوبارہ حاصل کر لے گا۔ہر سال چودہ ہزار سے زیادہ جہاز اس راستے سے گزرتے ہیں،ان میں کنٹینر شپ، قدرتی گیس اور دیگر سامان لے جانے والے جہاز شامل ہیں۔مصنوعات کی ترسیل بھی اس راستے کے ذریعے بروقت ہو جاتی ہے۔کہاجاسکتا ہےکہ یہ راستہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔معاہدے کے تحت اس کینال کا کنٹرول انیس(19) بلین ڈالر کے عوض فروخت کیا جا رہا ہے۔اس معاہدے کے تحت امریکی فرم بلیک راک پانامہ کینال کا کنٹرول سنبھال لے گی۔یہ معاہدہ امریکی صدر کی دھمکی کے بعدہو رہا ہے،ٹرمپ نے پانامہ کینال پر چینی کنٹرول کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کو اس تجارتی راستے پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے۔امریکی صدر نے پانامہ کنٹرول کے حوالے سے معاہدے کو بھی غلط کہا تھا۔سب سے زیادہ امریکہ کے تجارتی جہازاس راستےسے گزرتے ہیں اور دوسرا ملک چین ہے جس کےامریکہ کے بعد زیادہ جہاز گزرتے ہیں۔اس آبی راستے پر گزرنے والے جہازوں کی فیس پہلے کی نسبت زیادہ بڑھا دی گئی ہے۔ابتدا میں یہ کینال تنگ تھی لیکن بعد میں توسیع ہونے کی وجہ سےیہ راستہ کھلا ہو گیا۔اب اس آبی راستے سے بڑے بڑے جہاز بغیر کسی مشکل کے گزرتے ہیں۔جو بحری جہازبطورفیس ادائیگی کرتے ہیں،ان کو بھی غیر معمولی بچت ہوتی ہے۔
پانامہ کینال کی فروخت کامعائدہ امریکی صدر کی دھمکیوں کی وجہ سےیورہا ہے،لیکن سی کے ہچیسن ہولڈنگز کےکو منیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ صرف تجارتی نوعیت کا ہےاور اس میں سیاسی خبروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔کو منیجنگ ڈائریکٹر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ تجارتی معاہدہ ہےاوردھمکیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔اس معاہدے کے بارے میں حتمی فیصلہ بعد میں ہوگا۔اب اگرٹرمپ پانامہ کینال کوامریکی کنٹرول میں لے آتے ہیں تو یہ عمل امریکہ کو اربوں ڈالر سالانہ فائدہ پہنچانے کا سبب بن جائے گا۔اس فیصلے پرتنقید کی جاسکتی ہے لیکن امریکی نقطہ نظر سےایسا کرنا امریکہ کے لیے بہت ہی فائدہ مند معاہدہ ہوگا۔پانامہ کو بھی اپنی کمزور پوزیشن کا اچھی طرح احساس ہوگا،پانامہ حکومت مجبورا فروخت کے لیےمنظوری دے دے گی۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکی شرائط کے مطابق، امریکی بحری جہازوں سے کم فیس وصول کی جائے۔کم فیس کی وصولی اس معاہدے کو روک سکتی ہے،کیونکہ پھر بھی امریکہ بہت سا فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا۔اگر پانامہ کی حکومت منظوری نہیں دیتی تو ٹرمپ ان کے خلاف کوئی عملی اقدام بھی اٹھا سکتے ہیں۔پانامہ کینال کا کنٹرول اگر امریکہ حاصل کر لیتا ہےتو امریکہ کو اربوں ڈالر کا فائدہ بھی ہوگا اور چینی کنٹرول بھی ختم ہو جائے گا۔پانامہ کینال ایک راستہ نہیں بلکہ بہت بڑی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔اس کینال کے سلسلے میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے،اگر پانامہ گورنمنٹ یا چینی گورنمنٹ کی طرف سے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔امریکی صدر حکومت سنبھالنے کے بعد بہت سے ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیں جن کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔پانامہ کینال کو کنٹرول کرنا بھی ان کےاہم اعلانات میں سے ایک اعلان ہے۔
Leave a Reply