مضمون : عشرت معین سیما
پانچ فروری کی تاریخ کی قریب آتے ہی پاکستان اور دنیا بھر میں بسے کشمیریوں کی امیدیں انسانی حقوق کی علمبردار جماعتوں کی جانب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے نگاہ ضرور ڈالتی ہیں اور توقع کرتی ہیں کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیر کے لیے پاکستان کی ہمدردی عملی طور پر سامنے آئے۔ لیکن ایک امید و ناامیدی کے بیچ یہ نگاہیں خود بہ خود خاموش ہوجاتی ہیں۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی جانب سے ہر سال قومی اور بین الاقوامی سطح پر جلسے اور احتجاج کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارتی فوجیوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و زیادتی رُکی نہیں ہے وہاں آج بھی اس کے خلاف مزاحمت کے سلسلے جاری رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں بسے کشمیری چاہتے ہیں کہ پاکستان صرف زبانی کلامی وعدوں اور باتوں سے زیادہ عملی سطح پر انسانی حقوق کی پاسداری کرئے اور انسانی حقوق کے تحفظ سے وابستہ بین الواقومی تنظیمیں اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس حوالے سے آزاد کشمیر کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر آواز اُٹھائے اور ان لوگوں کی آواز بنے جو آواز نہیں اٹھا سکتے یا جن کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک نہیں پہنچائی جاتی۔مقبوضہ کشمیر کے لوگ ایک عرصے صرف اس لیے احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کی جان اور مال پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ کیا ہواہے۔ لاکھوں لوگوں کی شہادت اور بے گناہ لوگوں پر جبر و زیادتی کے باوجود بھارتی فوج کے مظالم وہاں اب تک کم نہیں ہوئے ہیں۔
پھر بھی تمام محبان انسانیت کو یقین ہے کہ پانچ فروری کے دن کے حوالے سے دنیا بھر میں کشمیر کے ساتھ یکجہتی اور اس کے حق خود ارادیت کے لیے کی جانے والی جدوجہد یقیناً ایک روز انقلاب ضرور لائے گی۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین کے مسلمان بھی اسرائیل کی طرف سے اس ظلم کا شکار ہیں اور وہ بھی اس ظلم سے ضرور نجات پائیں گے ۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مظلوم و بے بس انسان پر ظلم و زیادتی کے خلاف خدا کی بے آواز لاٹھی جب اٹھتی ہے تو دنیا دیکھتی ہے بقول شاعر کہ
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
Leave a Reply