Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پانی کا عالمی دن اور”برفانی تودوں کا تحفظ”

Articles , Snippets , / Sunday, March 23rd, 2025

تحریر: طارق خان یوسفزئی

پانی کا عالمی دن ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا، اس کے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنا اور ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو صاف پانی سے محروم ہیں۔اقوام متحدہ نے 1993 میں پانی کے عالمی دن کی منظوری دی، اور تب سے ہر سال مختلف تھیم کے تحت اسے منایا جاتا ہے۔اس سال پانی کے عالمی دن کا تھیم “برفانی تودوں کا تحفظ” ہے۔ یہ موضوع دنیا کے برفانی تودوں کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے، جو تازہ پانی کے اہم ذرائع میں سے ہیں۔ پانی زندگی کے ایک لازمی عنصر کے طور پر زمین پر تمام جانداروں کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہ صرف انسانی جسم کا 60 فیصد حصہ بناتا ہے بلکہ پودوں، جانوروں اور ماحول کے تمام پہلوؤں میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں کیونکہ یہ خوراک ہضم کرنے، جسم سے زہریلے مادوں کے اخراج، خون کی گردش، اور جسمانی درجہ حرارت کو متوازن رکھنے میں مدد دیتا ہے۔پانی زراعت میں بھی ایک بنیادی وسیلہ ہے، جو پودوں کی نشوونما اور خوراک کی پیداوار کے لیے ناگزیر ہے۔ کھیتوں کی آبپاشی سے لے کر صنعتوں میں مختلف مصنوعات کی تیاری تک، ہر جگہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں دریاؤں، جھیلوں، اور زیرِ زمین پانی کے ذخائر انسانی ترقی اور معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پانی کی قلت ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں پانی کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے، جہاں پانی کی غیر مساوی تقسیم اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر پانی کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں شدید مشکلات کا سامنا کریں گی۔ پانی کے ضیاع کو روکنے، جدید آبپاشی کے طریقے اپنانے اور پانی کو ری سائیکل کرنے جیسے اقدامات سے ہم اس قیمتی وسیلے کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔پانی کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ ہماری زندگی، صحت، ماحول اور معیشت کا بنیادی عنصر ہے۔ اس لیے ہمیں اس کا دانشمندانہ استعمال کرنا چاہیے تاکہ زمین پر زندگی کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔پاکستان میں پانی کی صورتحال دن بدن تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیاں، اور ناقص پانی کی مینجمنٹ کے باعث پاکستان پانی کی قلت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی 5,000 کیوبک میٹر تھی، جو اب کم ہو کر 1,000 کیوبک میٹر سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاکستان 2028 تک پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔پاکستان میں پانی کے زیادہ تر ذخائر دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر منحصر ہیں، مگر بھارت کی جانب سے آبی ذخائر پر قابض ہونے، گلیشیئرز کے پگھلنے، اور بارشوں کی کمی کے باعث پانی کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب، پانی کے غیر محتاط استعمال، کھیتوں میں پرانی آبپاشی تکنیک، اور شہری علاقوں میں پانی کے ضیاع سے مسائل مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔پانی کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ڈیموں کی تعمیر، جدید آبپاشی طریقے اپنانے، پانی کے ضیاع کو روکنے، اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے جیسے اقدامات ہی پاکستان کو مستقبل میں پانی کے بحران سے بچا سکتے ہیں۔پانی زندگی کے لیے بنیادی ضرورت ہے، اور اس کے ذخائر کی حفاظت اور بحالی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے، وہاں اس کے ذخائر کو محفوظ بنانا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ پانی کی غیر متوازن تقسیم، موسمیاتی تبدیلیاں، اور ناقص حکمت عملی کے باعث زیرِ زمین اور سطحی پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں،ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر: بڑے اور چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو محفوظ کیا جائے تاکہ خشک سالی کے دوران استعمال کیا جا سکے۔بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا: شہروں اور دیہات میں بارش کے پانی کو ری چارج ویل، تالاب اور مصنوعی جھیلوں کے ذریعے محفوظ کیا جائے۔جنگلات اور سبزہ زاروں کا فروغ: درخت اور پودے پانی کے ذخائر کو بھرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، لہٰذا شجرکاری مہم کو فروغ دینا چاہیے۔آبی آلودگی پر قابو پانا: دریاؤں، نہروں اور جھیلوں میں صنعتی اور گھریلو فضلہ پھینکنے سے گریز کیا جائے اور پانی کو صاف رکھنے کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں۔زیرِ زمین پانی کی سطح میں اضافہ: کنوؤں اور بورنگ کے ذریعے بے تحاشہ پانی نکالنے کے بجائے مصنوعی ری چارج ٹیکنالوجی اپنائی جائے تاکہ زیرِ زمین پانی کے ذخائر بحال ہو سکیں۔قدرتی آبی گزرگاہوں کو بحال کرنا: بند ندی نالوں اور جھیلوں کی صفائی اور بحالی کے لیے منصوبے بنائے جائیں تاکہ پانی کی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ ہو،پاکستان میں دنیا کے چند بڑے اور اہم گلیشیئرز موجود ہیں، جو ملک کے آبی وسائل کا ایک بنیادی ذریعہ ہیں۔ یہ گلیشیئرز زیادہ تر شمالی علاقوں میں واقع ہیں، جہاں بلند و بالا پہاڑوں کی برف سے بھرپور چوٹیاں سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے پاکستان میں تقریباً 7,253 گلیشیئرز موجود ہیں، جو جنوبی ایشیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔ یہ گلیشیئرز ملک کی 75 فیصد پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں، کیونکہ یہی دریاؤں میں پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ دریائے سندھ، جہلم، چناب، اور دیگر معاون دریا انہی گلیشیئرز کے پگھلنے سے وجود میں آتے ہیں۔پاکستان کے گلیشیئرز موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو پانی کی کمی، سیلاب اور زمینی تودے گرنے جیسے خطرات کو بڑھا رہے ہیں۔ یہگلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے (GLOFs) کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کے باعث جھیلیں بن رہی ہیں، جو اچانک پھٹنے سے شدید تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔کوہ پیمائی، سیاحت، اور صنعتی سرگرمیوں کے باعث برفانی علاقوں میں آلودگی بڑھ رہی ہے، جو گلیشیئرز کے ماحول پر منفی اثر ڈال رہی ہے “گلیشیئرز کے تحفظ” کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں تاکہ گلیشیائی جھیلوں کے خطرات کم کیے جا سکیں۔”گلیشیئر واچ پروگرام” کے تحت مختلف گلیشیئرز کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ درخت لگانے سے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے، جس سے برف پگھلنے کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔پاکستان کے گلیشیئرز ملک کے آبی وسائل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ خطرے میں ہیں۔ اگر فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں ان قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پاکستان کے آبی ذخائر محفوظ رہ سکیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International