rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف صاحب بیلا روس کے دورے پر گئے۔ان کے ساتھ وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ اور نائب وزیراعظم ووزیرخارجہ اسحاق ڈار بھی تھےاور سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب بھی بیلا روس پہنچ گئے تھے۔یہ دورہ کامیاب ہے یا ناکام،ابھی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن چند دن کے بعد اس کے ثمرات واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔وزیراعظم پاکستان کا بیلاروس میں گرم جوشی سےاستقبال کیا گیا ہے۔بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف صاحب کے درمیان معاہدے ہوئے۔فوڈ سیکیورٹی اور الیکٹرک گاڑیوں و بسوں کی تیاری میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔زراعت اور زرعی مشینری کی تیاری کے شعبے میں مشترکہ طور پر کام کرنے کا فیصلہ ہوا۔ان کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ تجارتی و اقتصادی تعلقات بڑھائے جائیں گے۔دفاعی تعاون بڑھانے کےعزم کابھی اظہارکیاگیا۔پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ ہنرمندافراد کو بیلاروس بھیجنے کی حکمت علی تیار کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں تجارت،سرمایہ کاری اورعلاقائی امور سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت کی گئی۔اس بات کا بھی عزم ظاہر کیا گیا کہ تعاون کو مستحکم کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دورہ کامیاب کہا جا سکتا ہے۔دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان اس وقت شدید مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔بیلاروس اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھاکرپاکستان مسائل پر قابو پا سکتا ہے۔اقتصادی حالت بہت ہی ابتر ہو چکی ہےاور پاکستان دیوالیہ تو نہیں ہوا لیکن صورتحال بہت ہی خراب ہے۔زراعت اور دیگر شعبوں میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کر کے اپنی ااپنی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔ پاکستان جدیدزرعی مشینری درآمد کر کے زراعت میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ صرف مشینری سےخود کفیل نہیں ہوا جا سکتا بلکہ دیگر مسائل کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔کھاد اوردیگر ضروری چیزیں جو زراعت کے لیے ضروری ہیں ان کو سستا کرنا ہوگا۔پاکستان زراعت کے علاوہ صنعتی مسائل کا بھی شکار ہے۔صنعتوں کے لیے بجلی اور دیگر ایندھن بہت ہی مہنگے ہیں،اس لیے صنعتی مشکلات بے تحاشہ بڑھ رہی ہیں۔بیلا روس کے تعاون سےبنائی گئی الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں انقلاب پیدا کر سکتی ہیں۔بیلا روس اور پاکستان تعاون کر کے بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیلاروس کی کل آبادی کروڑ کے قریب ہے۔ یہ روس اور یورپی یونین کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سےاس کی خاص سیاسی اہمیت ہے۔پہلے یہ روس کا حصہ تھا اور نوے کی دہائی میں علیحدہ ہوا۔یہ زیادہ ترقی یافتہ نہیں لیکن پسماندہ بھی نہیں۔امریکہ یا کوئی دوسرا ملک پاکستان اور بیلاروس کے درمیان بڑھتے تعلقات کو روک سکتا ہے۔ماضی قریب میں ایران اور پاکستان کے درمیان گیس اور تیل کا معائدہ ہو چکا تھا لیکن وہ معاہدہ پائیہ تکمیل تک ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔ہو سکتا ہے ان ممالک کے تعلقات پروان نہ چڑھ سکیں،لیکن امید کرنی چاہیے کہ یہ تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔پاکستان کو چین اور روس کےعلاوہ دیگر ممالک سے بھی تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔کئی ممالک پاکستان کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔آئی ایم ایف کی طرف سے بھی رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔پاکستان ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود بھی معاشی کمزوری کا شکار ہے۔پاکستان معیشت کو مضبوط کر سکتا ہےاگر اس بات کا اعادہ کر لیا جائے کہ اپنی مرضی کی پالیسیاں بنائی جائیں گی۔پاکستان کے ہنر مند افراد دوسرے ممالک جا کر زر مبادلہ بھیجتے ہیں اور ان کے ساتھ اکثر زیادتیاں بھی ہوتی ہیں،لیکن پاکستان یا سفارت خانے کی طرف سے ان کی مدد نہیں کی جاتی۔بیلا روس میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہنرمند افراد بھیجے جا رہے ہیں تو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کووہاں کوئی تکلیف نہ ہو۔صرف بیلا روس کی طرف بھیجےجانے والے افراد کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ جہاں جہاں پاکستانی محنت کر رہے ہیں ان کے تحفظات کا بھی خیال رکھا جائے۔
وزیراعظم پاکستان کئی ممالک کےدورے کر چکے ہیں اوران پر اکثر تنقید ہوتی ہے کہ وہ غیر ضروری دورے کر رہے ہیں۔دورے اگر کرنا ضروری بھی ہیں تو کوشش کی جائے کہ ان دوروں پر کم سے کم خرچ آئےکیونکہ پاکستان معاشی لحاظ سےبہت ہی کمزور ہے۔صرف موجودہ وزیراعظم نہیں بلکہ ماضی میں بہت سے سربراہان نےغیر ضروری دورے کیےاور ان دوروں پر پاکستانی قوم کا کافی سرمایہ خرچ ہوا۔دورے ضرور کرنے چاہیےلیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ دوروں کے مقاصد بھی پورے ہوں۔ظاہر بات ہے کہ دوروں کےمقاصد فوری طور پر پورے نہیں ہوتے بلکہ کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے.اب وزیراعظم پاکستان اور صدر بیلا روس کے درمیان 2027 تک ان معائدوں پر عمل درآمد ہوگااور یہ بھی ضرور نہیں کہ تمام معائدوں پر عمل ممکن ہو سکے۔سرمایہ یادیگر مسائل بھی رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں،لیکن یہ ضروری ہے کہ دورےپر اخراجات کم ہوں۔
Leave a Reply