Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان سے ہنر مندوں کی ہجرت: وجوہات اور نتائج

Uncategorized , / Monday, April 14th, 2025

rki.news
تحریر: احسن انصاری

برین ڈرین (Brain Drain) اس وقت ہوتا ہے جب تعلیم یافتہ، ہنر مند اور باصلاحیت افراد اپنے وطن کو چھوڑ کر بیرونِ ملک رہائش اور ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں برین ڈرین ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ 2022 سے 2025 کے دوران ہزاروں پروفیشنلز، طلباء اور مزدور بہتر روزگار، بہتر زندگی اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2022 سے 2024 کے درمیان 24 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے بیرونِ ملک ملازمت کے لیے ملک چھوڑا۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق صرف 2022 میں تقریباً 8 لاکھ 32 ہزار 339 افراد بیرونِ ملک گئے۔ 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 8 لاکھ 62 ہزار 625 ہو گئی، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ 2024 میں 15 فیصد کمی آئی، پھر بھی 7 لاکھ 27 ہزار 381 افراد نے ملک چھوڑا۔ 2025 کے حتمی اعداد و شمار ابھی تک جاری نہیں ہوئے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملکی حالات نہ بدلے تو یہ رجحان جاری رہے گا۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعداد و شمار صرف ان افراد پر مشتمل ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک ملازمت کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن کروائی۔ بہت سے لوگ تعلیم، امیگریشن پروگرامز یا غیر سرکاری ذرائع سے بھی بیرونِ ملک جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

پاکستانیوں کی سب سے پسندیدہ منزلیں خلیجی ممالک ہیں، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (UAE)، قطر اور عمان۔ یہ ممالک تعمیرات، انجینئرنگ، صحت اور دیگر ہنر مند شعبوں میں اچھی تنخواہ پر ملازمتیں فراہم کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یورپ کا ملک رومانیہ بھی خاص طور پر مزدوروں اور نیم ہنر مند افراد کے لیے پرکشش مقام بن چکا ہے۔ بہت سے پروفیشنلز اور طلباء امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی اور آسٹریلیا میں تعلیم اور مستقل رہائش کے لیے منتقل ہو رہے ہیں۔

پاکستان چھوڑنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ روزگار کے مواقع کی کمی ہے۔ ہر سال ہزاروں طلباء یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، لیکن مقامی مارکیٹ ان کے لیے مناسب ملازمتیں فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ نتیجتاً، بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان یا تو بے روزگار رہتے ہیں یا ایسے کام کرتے ہیں جو ان کی تعلیم کے مطابق نہیں ہوتے۔

معاشی مسائل بھی ایک بڑی وجہ ہیں۔ مہنگائی زیادہ ہے، تنخواہیں کم ہیں اور زندگی کے اخراجات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ لوگ اپنی محدود آمدن سے اپنے خاندانوں کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اس کے برعکس، بیرونی ممالک میں تنخواہیں زیادہ اور کام کا ماحول زیادہ مستحکم ہے۔

سیاسی عدم استحکام اور کرپشن نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ نظام ناانصافی پر مبنی ہے اور کامیابی صرف تعلقات کی بنیاد پر ملتی ہے، تو وہ اپنے ملک سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ کئی نوجوان پروفیشنلز کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنا مستقبل نہیں دیکھتے کیونکہ یہاں گورننس کمزور ہے اور مواقع ناپید ہیں۔

سیکیورٹی کے خدشات بھی اہم ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں قانون و امن کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، لیکن دہشتگردی، اسٹریٹ کرائم اور سیاسی تشدد کے واقعات اب بھی لوگوں کو غیر محفوظ محسوس کرواتے ہیں۔ بہت سے خاندان ایسے ممالک کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ان کے بچے پرامن اور محفوظ ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔

تعلیم بھی برین ڈرین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر سال ہزاروں پاکستانی طلباء بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ انہی ممالک میں بس جاتے ہیں کیونکہ وہاں بہتر ملازمتیں اور معیارِ زندگی میسر ہوتا ہے۔ ایک بار وہ وہاں سیٹل ہو جائیں تو ان کا واپس آنا مشکل ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ وہاں کیریئر اور خاندان بنا لیتے ہیں۔

اگرچہ برین ڈرین کئی چیلنجز پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی جو رقوم (Remittances) وطن بھیجتے ہیں، وہ ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا ذریعہ آمدن ہیں۔ 2024 میں پاکستان نے تقریباً 34.63 ارب ڈالرز کی ترسیلات زر وصول کیں۔ یہ زرمبادلہ ملک کو تجارتی خسارہ کم کرنے، معیشت کو سہارا دینے اور بہت سے خاندانوں کو مالی استحکام فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

تاہم، برین ڈرین کے طویل مدتی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ اور آئی ٹی ماہرین جیسے ہنر مند افراد ملک چھوڑتے ہیں تو ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تجربہ کار افراد کی کمی ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً، ملک علمی و تحقیقی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے، حکومت کو مقامی صنعتوں، سٹارٹ اپس اور ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہیے۔ کاروباری سوچ کو فروغ دینا اور چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی بھی بے روزگاری کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

دوسری بات، پروفیشنلز کے لیے تنخواہوں اور کام کے حالات کو بہتر بنایا جائے۔ کئی باصلاحیت لوگ صرف اس وجہ سے ملک چھوڑتے ہیں کہ انہیں یہاں اپنی قدر محسوس نہیں ہوتی۔ اگر انہیں مناسب معاوضہ اور ملازمت کا تحفظ دیا جائے، تو وہ ملک میں ہی رہنا پسند کریں گے۔

تیسری بات، ملک میں سیاسی استحکام، انصاف اور اچھی حکمرانی قائم کرنا ضروری ہے۔ جب لوگوں کو اپنے لیڈرز اور نظام پر اعتماد ہوتا ہے، تو وہ ملکی ترقی میں حصہ لینے کو تیار ہوتے ہیں۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ بیرونِ ملک موجود اپنے ہنر مند افراد سے بھی رابطہ رکھے۔ کئی پروفیشنلز بیرونِ ملک رہ کر بھی اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اگر انہیں موقع دیا جائے۔ انہیں تحقیقاتی منصوبوں، سرمایہ کاری اور حکومتی مشاورتی بورڈز میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

آخر میں، تعلیم کے نظام کو بہتر بنانا اور نوجوانوں میں مہارت پیدا کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر نوجوانوں کو اعتماد ہو کہ وہ پاکستان میں ایک کامیاب مستقبل بنا سکتے ہیں، تو ان کے ملک چھوڑنے کا رجحان کم ہو جائے گا۔

آخر میں یہ کہنا درست ہو گا کہ برین ڈرین ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑتے ہیں، جو ایک فطری عمل ہے، لیکن حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں جہاں ٹیلنٹ ملک میں ہی فروغ پا سکے۔ پاکستان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن اس صلاحیت کو تبھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب ہم اپنے سب سے قیمتی اثاثے — اپنے لوگوں — کو اہمیت دیں اور ان کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International