Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سفر: ماضی، حال اور مستقبل

Articles , Snippets , / Tuesday, April 29th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کا قیام 1947 میں عمل میں آیا تو اُس وقت ملک میں صرف چار جامعات تھیں۔ ان میں سے تین برٹش انڈیا کے دور میں قائم ہوئیں جبکہ ایک قیامِ پاکستان کے فوری بعد قائم ہوئیں۔ اُس وقت تعلیمی وسائل انتہائی محدود تھے اور تعلیم کے میدان میں ترقی ایک بڑا چیلنج تھی۔ آج جب ہم 2025 میں کھڑے ہیں تو پاکستانی جامعات کی یہ تعداد 261 تک پہنچ چکی ہے، جن میں 154 سرکاری اور 107 نجی شعبے کی جامعات شامل ہیں۔ یہ اضافہ بظاہر خوش آئند نظر آتا ہے لیکن کیا واقعی ہم نے تعلیم کے معیار پر توجہ دی یا صرف تعداد بڑھا کر خوش ہورہے ہیں؟
2002 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا قیام عمل میں آیا۔ HEC نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ہزاروں طلباء و طالبات کو گریجویشن سے لے کر پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ سرکاری و نجی دونوں شعبوں میں یونیورسٹیز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مگر اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے ایک خاموش سوال ہمیشہ موجود رہا: کیا ان جامعات کا اور پاکستانی نظام تعلیم کا معیار بھی ساتھ ساتھ بڑھا یا نہیں؟ یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے۔
بدقسمتی سے جامعات کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کا معیار عالمی سطح پر بہت پیچھے رہ گیا۔ بین الاقوامی رینکنگز ہماری جامعات کی اصل حالت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ 500 بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، شامل ہے جو 137ویں نمبر پر ہے۔ 1000 بہترین جامعات میں پاکستان کی کل 21 یونیورسٹیاں جگہ بنا پائیں۔ 2000 بہترین جامعات میں پاکستان کی کل 47 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقیناً ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم نے انرولمنٹ بڑھانے پر توجہ دی، مگر تعلیم و تحقیق کے عالمی معیار کو نظر انداز کیا۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں گلوبلائزیشن نے ہر شعبے میں مقابلے کو عالمی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ چاہے وہ معاشیات ہو، میڈیکل، انجینئرنگ، یا انفارمیشن ٹیکنالوجی؛ ہر شعبہ عالمی معیار کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری جامعات میرٹ کا بین الاقوامی معیار حاصل کرنے میں ناکام ہیں، پاکستانی طلباء اور پروفیشنلز کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے وہی معیار درکار ہے جو دنیا کی بہترین جامعات میں دیا جاتا ہے۔ ہم نے تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری نہیں کی، ہمیں صرف انفراسٹرکچر نہیں، بلکہ اساتذہ کی تربیت، جدید تحقیق اور انڈسٹری-اکیڈیمیا رابطہ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ تعلیم میں نجی و سرکاری شعبے کا کرداربھی تسلی بخش نہیں ہے، ان دونوں شعبوں کو معیار کی بہتری کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا، محض تعداد بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کی اعلیٰ تعلیم نے دو دہائیوں میں بہت طویل سفر طے کیا ہے، مگر یہ سفر ابھی ادھورا ہے۔ ہمیں اپنی جامعات کو عالمی معیار کی تحقیق اور تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا۔ پاکستانی ڈگری کو دنیا بھر میں قابلِ قدر بنانا ہے تو ہمیں تعلیم و تحقیق کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہوگا۔ کیونکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم “جامعات کی تعداد سے زیادہ معیار تعلیم” پر توجہ دیں۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International