عامرمُعانؔ
۔
چند دن سے اخبارات میں بچوں کے اغواء کی خبریں تسلسل سے شائع ہو رہی ہیں ، جن میں زیادہ اطلاعات پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے آ رہی ہیں ۔ یہ وہ خبریں ہیں جن کی اطلاع رپورٹ ہو رہی ہیں، لیکن پاکستان کے طول و عرض میں کئی ایسے گاؤں ، دیہات واقع ہیں جہاں سے اغواء کے واقعات کی اطلاعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی ہیں ۔ یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان کے بڑے اور ترقی یافتہ شہروں میں جہاں کئی مسئلے سر اٹھا رہے ہیں ، ان میں ایک نہایت سنگین مسئلہ بچوں کے اغوا کا بھی ہے ، جو والدین ، سرپرستوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے شدید پریشانی کا باعث بن رہا ہے ۔ آج کے اخبارات میں کراچی جیسے پاکستان کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہر سے ایک گمشدہ بچے کی گیارہ دن بعد لاش ملنے کی اطلاع شائع ہوئی ہے ، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح یہ جرائم پیشہ افراد کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ جو اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ گیارہ دن بچے کو سب کی نظروں سے اوجھل رکھنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسی بلڈنگ میں لاش بھی پھینک سکتے ہیں ، جبکہ جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں جن کا ان جرائم پیشہ افراد میں کوئی خوف نظر نہیں آ رہا ، کیونکہ ان کی مدد سے خاطرخواہ گرفتاریاں ممکن نہیں ہو پا رہی ہیں ۔ یوں سی سی ٹی وی کیمروں کی موجودگی میں ایسے جرائم کا پنپنا اپنے اندر خود ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ پاکستان میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں ، جن میں جرائم پیشہ افراد کا مضبوط نیٹ ورک ہونا سر فہرست ہے ۔ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان وارداتوں میں ملوث کئی منظم گروہ بچوں کو اغوا کر کے انہیں بھکاری مافیا یا غیر قانونی مزدوری کرنے والے افراد کو بیچ دیتے ہوں ، یا پھر دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں دھکیل دیتے ہوں گے ۔ بچوں کے اغواء کی ایک اور بڑی وجہ تاوان کی وصولی کے لیے اغوا بھی ہے ۔ جس میں خاص افراد کو ٹارگٹ کر کے ان کے بچوں کو اغوا کر کے ان سے بھاری تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ اغواء کی وارداتوں کے سلسلے میں یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ غیر قانونی گود لینے والے افراد بھی ان جرائم پیشہ گروہ سے رابطے میں رہتے ہیں اور یہ گروہ بچوں کو اغوا کر کے انہیں بے اولاد جوڑوں یا دیگر افراد کو فروخت کر دیتے ہیں۔ ایک اور اہم وجہ آپس کی دشمنی اور انتقامی کارروائیاں بھی ہیں ، جس میں بعض اوقات ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے بھی بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے ۔ ذہنی امراض یا نفسیاتی مسائل میں مبتلاء افراد بھی معاشرے میں ایسے بھیانک جرائم کا سبب بنتے ہیں ، جہاں ذہنی معذوری یا ڈپریشن میں مبتلاء افراد ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ قطع نظر اس کے وجوہات کوئی بھی ہوں ، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی کے لئے شب و روز محنت کریں ، تاکہ جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا جا سکے ۔ بچوں کے اغوا کے واقعات نہ صرف متاثرہ خاندانوں بلکہ پورے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ اغوا ہونے والے بچوں کے والدین شدید ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات نا صرف والدین پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ اس سے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے ۔ والدین بچوں کو اسکول یا باہر بھیجنے سے ہچکچانے لگتے ہیں۔ اور عملاً پورے معاشرے پر خوف کی فضا چھا جاتی ہے ۔ اغواء شدگان بچے اگر کسی طرح بچ کر واپس آ بھی جائیں، تب بھی وہ ایک طویل عرصہ ذہنی و جسمانی صدمے کا شکار رہتے ہیں۔ اور واپس عملی زندگی میں آنے میں انہیں کافی وقت لگ جاتا ہے ۔ لہٰذا حکومت اور عوام کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائیں ، ایسے واقعات رونما ہونے پر ان اداروں کی کارکردگی کی سختی سے جانچ کی جائے ۔ سی سی ٹی وی کیمروں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مجرموں کا سراغ لگانے کے عمل کو بہتر بنایا جائے تاکہ مجرموں کی نشاندہی ممکن ہو اور ان کا صفایا کیا جائے۔ والدین بچوں پر گہری نظر رکھیں اور انہیں غیر محفوظ جگہوں پر جانے سے روکیں ، اپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ اجنبی افراد سے ملنے اور ان کے ساتھ جانے سے پرہیز کریں ۔ اہل محلہ اپنے علاقے میں اجنبی افراد پر نظر رکھیں تاکہ کسی بھی واردات کی صورت میں ان کو پکڑا جا سکے ۔ اسکولوں اور دیگر اداروں میں بچوں کو حفاظتی تدابیر سکھائی جائیں ۔ اغوا کے واقعات پر فوری کارروائی کے لیے ہیلپ لائنز اور ایمرجنسی سروسز فعال کی جائیں ۔ پاکستان میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنجیدہ مسئلہ ہیں ، جن کے سدباب کے لیے حکومت، والدین، اور سماجی تنظیموں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، جس کے نتائج پورے معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔
Leave a Reply