تحریر:اللہ نوازخان
پاکستان میں سیلابوں اور شدید بارشوں نے بہت زیادہ تباہی مچا رکھی ہے۔مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب سے پنجاب میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے(پی ڈی ایم اے)کے مطابق صوبہ پنجاب میں حال ہی میں 104 افرادہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد اپنی جگہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔پی ڈی ایم اے کے مطابق 16 سے 19 ستمبر کے دوران مزید بارشوں کا امکان ہے۔اگر یہ بارشی سپیل شدت سے برسا تو مزید ہلاکتیں ہو سکتی ہیں نیز مزید لاکھوں افراد متاثر ہو جائیں گے۔یہ بارشیں دریاؤں کے بالائی علاقوں میں ہوں گی،جس سےسیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔اب دریائےراوی،ستلج اورچناب کےسیلابی ریلوں نےپنجاب کے مختلف علاقوں میں بہت زیادہ تباہی مچا رکھی ہے۔پیش گوئی کے مطابق آنے والا سپیل مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے کچھ بندوبست کر لیا جائے تاکہ نقصانات کم سے کم اٹھائے جا سکیں۔حالیہ ہونےوالےان سیلابوں اور بارشوں کے بارے میں کئی ماہ پہلےآگاہی مل چکی تھی لیکن ان سے نمٹنے کے لیےمناسب بندوبست نہیں کیاگیا۔صوبہ پنجاب کےمتعدد علاقہ جات سیلاب کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔میانوالی،مظفرگڑھ،ملتان، گجرات سمیت کئی علاقہ جات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پانچ ہزار سے زائد دیہاتوں کو نقصان پہنچا ہے۔بارشوں اور سیلاب سےبہت سے گھرتباہ ہو چکے ہیں اور جو گھر بچے ہوئے ہیں،وہ رہائش کے قابل نہیں رہے۔بہت سے افراد افراتفری میں نکلے،کیونکہ پانی پہنچ چکا تھا لہذا وہ قیمتی سامان اٹھا نہ سکے۔بہت سا قیمتی سامان مثلا جیولری،رقم وغیرہ پانی میں بہہ گئے۔ہزاروں جانور بھی سیلابوں میں بہہ گئے۔کئی قیمتی جانور جن کی قیمت لاکھوں روپے تھی، وہ بھی بہ گئے۔بہت سے خاندان ان جانوروں کی وجہ سے اپنی گزر بسر کر رہے تھے،اب ان کا ترکہ بہ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ دانے دانے کو محتاج ہو گئے ہیں۔لاکھوں افراد کھلے آسمان کے نیچےپڑے ہوئے ہیں۔ان بے بس افراد کو خوراک سمیت دیگرانسانی ضروریات کی اشد ضرورت ہے۔ابھی تک بہت سے علاقہ جات میں پانی موجود ہے جس کی وجہ سے متاثرین اپنی گھروں کی طرف واپس نہیں آرہے۔بہت سے علاقے سیلاب سے تو بچے ہیں لیکن شدید بارشوں کی لپیٹ میں آگئے۔بارشوں سےوہ آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں،جہاں مکانات زیادہ پختہ نہیں تھے۔مثال کے طور پر میانوالی میں گلا خیل کا علاقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔اس علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سےیہاں گارے مٹی اور پتھروں سے مکانات تعمیر کیے جاتے ہیں نیز چھتیں بھی درختوں کی شاخوں وغیرہ سے بنائی جاتی ہیں۔گلاخیل میں درجن سے زائد گھر رہنے کے قابل نہیں رہے اور بہت سے گھروں کو جزوی نقصان پہنچاہے۔میانوالی کےکچھ علاقوں میں سیلابوں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔مثال کے طور پر کچہ دراز والا،جنتی والا،سمند والا سمیت کئی علاقہ جات شدید متاثر ہوئے ہیں۔
بارشوں اور سیلاب سے متاثرین اس وقت شدید مصیبت میں ہیں۔ان کو فوری طور پر خوراک،ادویات،کمبل،پلاسٹک کے جوتوں،خشک کپڑوں اورچادروں وغیرہ کی شدید ضرورت ہے۔حکومت اور کچھ تنظیمیں متاثرین تک خوراک اور دیگر ضروری اشیاء پہنچا رہی ہیں،لیکن ان متاثرین کو زیادہ ضرورت ہے۔بہرحال فوری طور پر بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے۔سیلابی علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سےکئی قسم کی بیماریاں پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے،جو کہ وبائی صورتحال اختیار کر سکتی ہیں۔ملیریا،چکن گونیا،ڈینگی وغیرہ جیسے امراض کا شکار بہت سے افراد ہو سکتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ افراد بیمار ہوئے ہیں۔سیلاب کی وجہ سے پانی بھی الودہ ہو چکا ہے اورآلودہ پانی انسانی جسم کے لیے خطرناک ہے،لہذا صاف پانی فوری طور پر مہیا کیا جائے۔موسم کا مقابلہ کرنے کے لیےٹینٹ وغیرہ بھی فوری طور پر مہیا کرنا ضروری ہیں۔عارضی بیت الخلا بھی تعمیر کیے جائیں کیونکہ بیت الخلا نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں،خصوصا خواتین زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔اب بھی بہت سے افراد سیلابی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں ان کو مدد مہیاکر کے خشک علاقوں میں لایا جائے۔
کچھ ہی دنوں میں سیلابی صورتحال ختم ہو جائے گی لیکن سیلاب اپنے اثرات چھوڑ جائے گا۔لوگوں کو گھروں کی تعمیر کے لیےسرمایہ درکار ہوگا،حکومت ان کو فوری طور پر سرمایہ مہیا کرے۔اس کے علاوہ جن لوگوں کا مالی نقصان ہوا ہے اس کو بھی پورا کیا جائے۔بہت سےزرعی رقبہ جات متاثر ہو چکے ہیں،ان کو دوبارہ کاشت کے قابل بنانے کے لیے بھی سرمایہ کی ضرورت ہوگی۔علاوہ ازیں بہت سے تعلیمی ادارے بھی متاثر ہو چکے ہیں،ان کی فوری تعمیر کرنی ہوگی تاکہ تعلیمی نظام منقطع نہ ہوسکے۔سیلابوں نےبہت زیادہ تباہی مچائی ہوئی ہے اس سے نمٹنے کے لیےوقت لگے گا اور کثیر سرمایہ بھی درکار ہوگا،حکومت زبانی کلامی کے علاوہ حقیقی مدد کر کےمتاثرین کو بحال کر سکتی ہے۔
سیلاب نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن کچھ طریقوں سے سیلاپ سے پہنچنے والے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔بہت سے افراد اپنے گھر آبی گزر گاہوں پر تعمیر کر دیتے ہیں،جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو سیلاب آجاتے ہیں اور یہ سیلاب گھروں کو بہا کر لے جاتے ہیں۔اگر گھر تعمیر کرتے وقت خیال رکھا جائے تو نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔آبی گزر گاہوں اورندی نالوں کو بھی صاف رکھنا ضروری ہے تاکہ پانی روانی سے بہ سکے۔آبی گزرگاہیں یا ندی نالے جب کیچڑ وغیرہ سے بھر جاتے ہیں تو پانی روانی سے نہیں بہہ سکتا اور جب پانی کو گزرنے کا راستہ نہ ملے تو دیگر راستے اختیار کر لیتا ہے جس کی وجہ سےآبادیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔حکومت بھی سختی سے ان لوگوں کو منع کرے جو خطرناک جگہوں پر اپنے گھر تعمیر کرتے ہیں۔آئیندہ کےلیےحکومت کو پہلے ہی منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ کم نقصانات ہوں۔جیسے پہلے علم ہو گیا تھا کہ بارشیں اور سیلاب آنے والے ہیں تو ان کابہتر منصوبہ بندی سے مقابلہ کیا جا سکتا تھا،لیکن خاص توجہ نہیں دی گئی۔قدرتی آفات ہوں یا دیگر آفات،ان سے بہترین حکمت عملی سے نمٹا جا سکتا ہے۔حکومت کے ساتھ عوام بھی سیلاب متاثرین کی مدد کرے تاکہ فوری طور پر وہ بحالی کی طرف بڑھ سکیں۔جو جتنی مدد کر سکتا ہے کرے۔
Leave a Reply