تازہ ترین / Latest
  Monday, March 10th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

پاکستان میں صحت کےمسائل

Articles , Snippets , / Friday, March 7th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

پاکستان میں صحت کےمسائل بھی کافی بڑھے ہوئے ہیں۔صحت کے نظام کودرست کرنے میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں،ان میں سرفہرست معیشت کا کمزور ہونا ہے۔ملک کی کمزور معیشت صحت کے مسائل کو حل کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔انفرادی طور پر بھی بہت زیادہ غربت ہے،جس کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔غربت کے علاوہ لاعلمی بھی مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔لا علمی سے مراد یہ ہےکہ بڑی بڑی بیماریاں انسانی صحت کو لاحق ہوتی ہیں لیکن ان کی خطرناکی سےناوقفیت، اموات میں اضافہ کر رہی ہے۔صفائی کا فقدان بھی پایا جاتا ہےاور یہ غلطی یا نااہلی بیماریوں میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔بعض اوقات درست تشخیص نہیں ہو پاتی اور اصل بیماری کا علاج نہیں ہوپاتا،اس طرح اموات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔بدپریزی بھی اکثر اوقات جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔صفائی کےمعیارکا خیال نہیں رکھا جاتا یا ناقص خوراک استعمال کی جاتی ہے۔آلودہ پانی کے علاوہ قسم قسم کے کیمیکل زدہ مشروبات بھی صحت کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ڈاکٹروں کی عدم دستیابی بھی مسائل میں اضافہ کرتی ہےاور بعض اوقات عطائی ڈاکٹروں کا علاج بھی انسان کو صحت مند کرنے کی نسبت موت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔کئی وجوہات ہیں،جن کی وجہ سے صحت کے مسائل روز بروز بڑھ رہے ہیں۔بعض اوقات جہالت کی وجہ سے مرض کا علاج ٹونے ٹوٹکوں سے کرایا جاتا ہےاور درست طریقہ سے علاج نہ کرنا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔اگر ڈاکٹر بھی درست مل جائیں،تشخیص بھی ہو جائے،تو ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ ادویات جعلی ہوتی ہیں۔جعلی ادویات کا استعمال انسانی زندگی کو موت کی منہ میں دھکیلتاہے۔بعض اوقات زائد المعیادمدت (Expiry)ادویات بھی فروخت ہوتی ہیں۔ایکسپائری ادویات زہریلی ہو جاتی ہیں اور انسان کو مار نہ بھی دیں تو جسم کو نقصان پہنچا دیتی ہیں۔کئی قسم کے مسائل پائے جاتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
بعض بیماریاں شروع میں معمولی سے ہوتی ہیں اور بروقت علاج سے ٹھیک ہو جاتی ہیں۔اگر بروقت علاج نہ کرایا جائے تو بعد میں انسانی صحت کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صحیح ڈاکٹر تک رسائی غریب آدمی کی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ایک تو مسئلہ یہ ہے کہ اصل ڈاکٹرمریض سے دور ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بھاری اخراجات سے بچنے کے لیے عطائی ڈاکٹروں کی طرف رخ کر لیا جاتا ہے۔عطائی ڈاکٹر اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور ان کویہ علم ہوتا ہے کہ کوئی ان کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔بعض اوقات فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن عطائی ڈاکٹر سوجھ بوجھ نہ رکھنے کے باوجود مریض کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ایک دل کا مریض ان کے پاس چلا جائے تو وہ ناسمجھی کی وجہ سےدوسری بیماریوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں،اس طرح مریض اصل علاج نہ کروانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔پی ایم اے(پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن)نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ لاکھوں عطائی ڈاکٹر ہیں جواپنے کلینکس چلا رہے ہیں۔وہ بعض اوقات اپریشن تک بھی کر ڈالتے ہیں۔کتنی خوفناک بات ہے کہ ایک عطائی ڈاکٹر ہرمرض کا علاج کرنے کا دعوی کرتا ہےلیکن وہ عام سی بخار کی سوجھ بوجھ بھی نہیں رکھتا۔کئی علاقوں میں مڈل سے لے کر میٹرک تک تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہوتے ہیں۔وہ ادویات اور مرض سےخاص وقفیت نہیں رکھتے۔عطائی ڈاکٹروں کے خلاف قانونی کاروائی کی ضرورت ہےکیونکہ انسانی جان بہت ہی قیمتی ہے اور انسانی جان سے کھیلنا بہت بڑا جرم ہے۔اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ادویات جعلی یا ایکسپائری نہ ہوں۔بعض ڈاکٹر کمیشن لے کر غیر ضروری ادویات لکھتے ہیں یا متعلقہ کمپنی کی ادویات پر اصرار کرتے ہیں،اس بات کا ڈاکٹر کو خیال رکھنا چاہیے کہ پاکستانی قوم غربت کی ماری ہوئی ہےاور ان پر اضافی بوجھ ڈالنا،ان کو مشکلات میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔غیر ضروری اور بلا جواز ٹیسٹ بھی نہ کروائے جائیں،کیونکہ اکثریت بھاری اخراجات ادا نہیں کر سکتی۔بعض لیبارٹریاں درست تشخیص کرنے میں ناکام ہوتی ہیں،ان لیباٹریوں کے مالکان کے خلاف بھی قانونی کاروائیاں ہونی چاہیے۔لیبارٹری کی اجازت تب دی جائے جب وہ سائنسی اصولوں کے مطابق ٹیسٹ کریں۔ٹیسٹ کرنے والے آلات معیاری ہوں اور بیماری کی درست تشخیص کی نشاندہی کریں۔
بعض بیماریاں ناقص غذا کےاستعمال کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔اشیائےخوردونوش میں ملاوٹ کرنا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔کئی کھانے والی چیزوں میں ناقص اجزاء شامل کر دیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر مرچوں میں برادہ شامل کر دیا جاتا ہےیاگھی میں انتڑیوں یا کسی اور چیز کی ملاوٹ کر کےمارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے۔دودھ بھی کیمیکل یا مصنوعی طریقےسے بنا کرفروخت کیا جاتا ہے۔اسی طرح زہریلی اشیاء کھا کر انسان بیمار ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں صحت پر توجہ خاص نہیں دی جاتی۔کئی بیماریاں علاج کے بعدختم ہو جاتی ہیں اور کئی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو تمام عمر جان نہیں چھوڑتیں۔شوگر،دمہ،مرگی یا دل کی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں،جو مرتے دم تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔بہت سی بیماریاں بدپرہیزی کی وجہ سے انسان کو شکار کر لیتی ہیں۔اگر پرہیز کر لیا جائے تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔اگر کوئی بیماری لگ بھی جائے تو پرہیز سےبیماری کو کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے۔شوگر کے لیےپرہیزعلاج سے بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔کئی بیماریاں چھوت کی وجہ سے لگتی ہیں،جیسے ٹی بی ایک فرد سے دوسرے فرد تک آسانی سے منتقل ہو جاتی ہے۔ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں سے احتیاط سے ہی بچاجا سکتا ہے۔ملیریا بخار جو ایک وبائی صورت اختیار کر کےبہت سے انسانوں کو شکار کرتا ہے،مچھروں اور صفائی کے ذریعےملیریا سے بچاجا سکتا ہے۔پولیو جیسی موذی بیماری ابھی تک کنٹرول میں نہیں آسکی،اس کے لیے پولیو کے قطرےچھوٹےبچوں کو ضرور پلانےچاہیےتاکہ پولیو جیسے مرض سے چھٹکارا پایا جا سکے۔
پاکستان میں صفائی کا نظام بھی غیر معیاری ہے۔سیورج کاناقص انتظام ہونے کی وجہ سےکئی قسم کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔صنعتی فضلہ بھی خاص طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔آبادی میں اضافہ صحت کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہےاور مستقبل میں صحت کا مسئلہ شدید بحرانوں میں گھر جائے گا۔صحت مند ماحول ہی انسانوں کی صحت کا ضامن ہوتا ہے۔گھروں میں سپرے کیا جائےتاکہ مچھروں وغیرہ کا صفایاکیاجا سکے۔صاف ستھرا لباس بھی زیب تن کیا جائے اور روزانہ نہانے کی عادت اپنا لینی چاہیے۔کھانا کھاتے وقت ہاتھ ضرور دھوئے جائیں۔رفع حاجت کے بعد بھی ہاتھ صاف کیے جائیں۔کئی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں،مثال کے طور پر ٹائیفائیڈ،ہیضہ وغیرہ،ان کے لیےبہتر علاج کا بندوبست حکومت کو کرنا چاہیے۔صحت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحت کے فنڈ میں اضافہ کیا جائےاور اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ وہ فنڈکرپشن کی نظر نہ ہو جائیں۔صحت کے مسائل حل کرنے کے لیےطویل المیعادمنصوبے بنانے ہوں گے۔جدید لیبارٹریاں بھی ضرورہونی چاہیے تاکہ امراض کی تشخیص ہوسکے۔اسپتال جو سرکاری ہیں،ان میں ادویات کی موجودگی ضروری ہو۔جو پرائیویٹ اسپتال ہیں،ان کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ کارکردگی کے لحاظ سےبہترین کام سر انجام دیں۔پرائیویٹ اسپتالوں کےمالکان اس بات کے بھی پابند ہوں کہ وہ ناجائز منافع نہ لیں۔نوزائیدا بچوں کی صحت کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے،کیونکہ ہزاروں بچے درست علاج نہ کرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں صحت کے مسائل بہت ہی زیادہ ہیں،لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔صحت جیسے بڑے مسئلے کو نظر انداز کرناخاصی تشویش کی بات ہے۔صحت کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International