rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت، معاشرت اور ثقافت پانی کے قدرتی ذرائع سے جڑی ہوئی ہے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک، پانی کی تقسیم کے مسائل مسلسل گھمبیر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کی جڑیں صرف داخلی سیاست یا صوبائی مفادات تک محدود نہیں بلکہ اس کا پس منظر خطے کی بڑی طاقتوں کے فیصلوں اور بین الاقوامی معاہدات سے بھی جڑا ہوا ہے۔
1960ء میں ورلڈ بینک کی ثالثی کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ دراصل اس بحران کے حل کے لیے پہلا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت راوی، بیاس اور ستلج کے دریاؤں کا مکمل کنٹرول بھارت کو دے دیا گیا جبکہ پاکستان کو صرف تین مغربی دریا، چناب، جہلم اور سندھ دیے گئے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان ان دریاؤں سے محروم ہو گیا جو اس کے مشرقی علاقوں کی زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔
بھارت کی جانب سے دریاؤں کا رخ غیر قانونی طور پر موڑنے کی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔گزشتہ دہائیوں میں بھارت نے چناب اور جہلم جیسے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیمز تعمیر کیے جن سے نہ صرف پاکستان کے حصے کے پانی میں کمی واقع ہوئی بلکہ ان ڈیمز کے ذریعے بھارت کو پاکستان کے لیے پانی کے بہاؤ کو “سفارتی ہتھیار” کے طور پر استعمال کرنے کا موقع بھی ملا۔ اس غیر متوازن صورتِ حال کا سارا بوجھ اب دریائے سندھ پر منتقل ہو چکا ہے جو پاکستان کی زرعی معیشت کا آخری سہارا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نئی نہریں زرخیزی کے ذرائع ہیں یا تنازع؟ موجودہ حکومت نے “سبز پاکستان” کے نعرے کے تحت چھ تزویراتی نہریں بنانے کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد تھل، چولستان اور تھر جیسے بنجر علاقوں کو قابلِ کاشت بنانا ہے۔ تاہم ان نہروں کا منبع دریائے سندھ ہے جس پر سندھ کے حصے کا پانی پہلے ہی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جو وفاق میں حکومت کی اہم اتحادی ہے، ان نہروں کی سخت مخالفت کر رہی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس منصوبے کو سندھ کے ساتھ “پانی کا سودا” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “اگر نئے علاقے آباد کرنا ہیں تو ضرور کریں مگر دریائے سندھ پر ہم سودے بازی نہیں کریں گے۔” انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر متنازع منصوبہ واپس نہ لیا گیا تو پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جائے گی۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے سیاسی گرمی کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش میں بات چیت کا راستہ اپنانے پر زور دیا ہے۔ اس ضمن میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے 1991ء کے بین الصوبائی پانی معاہدے اور 1992ء کے ارسا ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ “ان قوانین کی موجودگی میں کسی سے ناانصافی نہیں ہو سکتی۔”
ادھر سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹو نے بھی یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ ارسا نے ان نہروں کے لیے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے اور ان کی اصولی منظوری سابق صدر آصف زرداری نے دی تھی۔ تاہم یہ بیانیہ بھی تنازع کا حل نہیں بن سکا۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ تیس فیصد سے زائد ہے اور تقریباً 60 فیصد آبادی کا انحصار اسی پر ہے۔ مگر موسمی تغیرات، خشک سالی، گلوبل وارمنگ اور غلط حکمتِ عملی نے اس شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آبی قلت نے جہاں فصلوں کی پیداوار کو کم کیا ہے وہیں خوراک کی قلت، مہنگائی اور دیہی غربت میں بھی اضافہ کیا ہے۔
یہ مسئلہ صرف سندھ یا وفاق کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ اگر آبی تقسیم کا مسئلہ فوری طور پر سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج داخلی خلفشار، زرعی بحران، سیاسی کشمکش اور حتیٰ کہ بین الصوبائی نفرت کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ آئینی اداروں جیسے ارسا کو مزید بااختیار اور شفاف بنایا جانا چاہیے۔ تمام فیصلے سائنسی، ماحولیاتی اور معاشی بنیادوں پر ہونے چاہئیں، نہ کہ سیاسی مفادات کی روشنی میں، جو کہ عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔
پاکستان اس وقت جن داخلی و خارجی بحرانوں سے گزر رہا ہے ان میں پانی کا مسئلہ ایک ایسا بارودی سرنگ بن چکا ہے جو اگر پھٹ گیا تو اس کا دھماکہ نہ صرف زراعت بلکہ قومی وحدت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس نازک مرحلے پر دوراندیشی، بین الصوبائی مشاورت اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پالیسی سازی ہی وہ واحد راستہ ہے جو پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتا ہے۔
Leave a Reply