تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
پاکستان میں چینی کا بحران پیدا ہو چکا ہےاور یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی بار بار بحران پیدا ہوتا رہا ہے۔پاکستان میں صرف چینی کا بحران پیدا نہیں ہوتا بلکہ دوسری اشیاء کےبھی بحران پیدا ہو جاتے ہیں۔کبھی آٹے،کبھی کھاداور کبھی کسی اور چیز کے بحران پیدا ہوتےرہتے ہیں۔چینی کا حالیہ بحران رمضان سے کچھ دن پہلے شروع ہوا،جب حکومت نے نوٹس لیا تو ذخیرہ اندوز اربوں روپے کا منافع کما چکے تھے۔رمضان کے دوران چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔چینی 170روپے سے لے کر 180روپے تک فروخت ہوتی رہی۔اس پر نظر رکھنے کے لیے ایک ادارہ بھی ہے،جس کوسی سی پی(مسابقتی کمیشن آف پاکستان)کہا جاتا ہے۔سی سی پی کی طرف سےکہا گیا ہے کہ وہ چینی کے جاری بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔سی سی پی کی طرف سےوارننگ بھی جاری کی گئی ہے کہ اگر اس شعبے میں کوئی مسابقت مخالف سرگرمی پائی گئی تو شوگر ملزکے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔سی سی پی کے اعلامیہ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے پرروزانہ کی بنیادوں پر نگرانی کی جا رہی ہے۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نگرانی کا کتنا فائدہ صارفین کو مل رہا ہے؟شوگرملزسے 140روپے ایکس ملز پرائس کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن اب حکومت نےخود چینی کی159 روپے فی کلو ایکس ملز پرائس کو تسلیم کر لیا ہے۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اب عام صارفین کو چینی 164 روپےفی کلو ملے گی۔چینی پہلے بھی تقریبا 170 سے 180روپے تک مل رہی تھی،اب حکومت کے نوٹس لینے کی وجہ سے164 روپے کلو چینی ملے گی۔اب سوال یہ ہے کہ عوام کو کتنا ریلیف ملے گا؟164 روپے والی چینی 170روپے میں ہی بکےگی۔اگر 164 روپے فی کلوچینی فروخت ہو تو عوام کوخاص فائدہ نہیں ملے گا۔پہلے جب 140 روپے ایکس مل پرائس کی یقین دہانی کرائی گئی تھی تو اس پر شوگر ملز کو پابند کیوں نہ کرایا گیا؟حکومت عوامی پریشانی کا خیال رکھےاور جتنا ممکن ہو سکے عوام کو ریلیف ملنا چاہیے۔بڑھتی مہنگائی نے عوام کو پریشان کر رکھا ہےاور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔جس طرح اعلان کیا گیا ہے کہ ان شوگر ملز کے خلاف سخت کروائی کی جائے گی جو عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھیں گی،اس کو یقینی بنایا جائے کہ واقعی ان کو سزا ملےجو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔چینی اب تقریبا ہر گھر میں استعمال ہونے والی چیز بن گئی ہے۔کوئی گھر ایسا نہیں جہاں چینی کا استعمال نہ ہوتا ہو۔چینی مختلف کھانے کے لیے استعمال ہونے والی چیزوں میں استعمال ہوتی ہےاور اس کا خریدنا ضروری بن چکاہے۔حکومت چینی قیمتوں میں کمی لائے،تاکہ عوام پر بوجھ کم پڑ سکے۔
2020 میں مسابقتی کمیشن نےانکشاف کیا تھا کہ شوگر ملزاور پی ایس ایم اے(پاکستان شوگر ملز ایسویشن) مل کرچینی کی قیمتوں کے تعین اور سپلائی کو کنٹرول کرنے میں ملوث تھیں۔سی سی پی نےشوگر ملز پر چھاپے بھی مارے۔اگست 2021 میں مسابقتی کمیشن نے شوگر ملز اور پی ایس ایم اے پر ریکارڈ 44ارب روپےجرمانے کیے۔اس فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔سندھ ہائی کورٹ اور لاہورہائی کورٹ کےساتھ ساتھ سی ٹی اے(مسابقتی اپیلٹ ٹریبونل)کی جانب سےحکم امتناع جاری کیا گیا،اس کی وجہ سے جرمانے کی وصولی میں تاخیر ہوئی۔تاخیر تو ضرور ہوئی لیکن جرمانے کی رقم بھی وصول نہ ہو سکی۔ایک اطلاع کے مطابق جرمانے کی رقم بہت زیادہ تھی،لیکن وصول صرف آٹھ کروڑروپےہوئے۔چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی جتنی کوشش ہوتی ہیں،ان کو روک دیا جاتا ہےکیونکہ بڑے بڑے افراد منافع حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی ہو۔کاروائیاں ہو بھی رہی ہیں۔کچھ دن پہلے وفاقی وزیر خزانہ محمداورنگزیب نے کہا ہے کہ مانیٹرنگ سسٹم کی وجہ سے چھ شوگر ملوں کو سیل کر دیا گیا ہے اورمانیٹرنگ سسٹم کی وجہ سے اس سال 24 بلین سیلز ٹیکس شوگر ملوں سے اکٹھا ہوا ہے۔اس طرح کی کاروائیاں مزید ہونی چاہیےتاکہ شوگر ملز مالکان ناجائز منافع کمانےسے باز رہیں۔
چینی کے ریٹوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ریٹ کا تعین ہو جائے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ صارف کو بھی متعین ریٹ پر چینی ملے۔ناجائز منافع کمانے کے لیے چینی کو ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت قسم کے ایکشن لینے ہوں گے۔وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بھی کچھ دن پہلےچینی ذخیرہ اندوزوں اور قیمتوں میں اضافے کے لیے،چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نےکہا تھا کہ چینی کی وافر مقدار پاکستان میں موجود ہے۔اگر چینی کی وافر مقدار پاکستان موجود ہے تو مہنگی کیوں بک رہی ہے؟ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت قسم کے ایکشن لے کر ہی چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔رمضان سے پہلےچینی 145 روپے سے لے کر 160 روپےفی کلو تک بک رہی تھی اور جنوری کے مہینے میں چینی کی قیمت 130 روپے سے لے کر 150 روپےفی کلو کے درمیان تک تھی۔اب فوری طور پر قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے۔”شوگرکین”بھی شوگر ملز کو سستا ملتا ہے.سستا شوگرکین کی نسبت چینی کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔چینی کی قیمتوں پرکنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔صرف چینی ہی نہیں بلکہ دوسری اشیاء کے ریٹس پر بھی کنٹرول کیا جائے۔شوگر ملز پر لگائے جانے والے جرمانے وصول کیے جائیں اور وہ رقم چینی کی قیمتقں اور دوسری اشیاء کی قیمتوں کوکنٹرول کرنے پر لگائی جائے۔چینی کا بحران حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی ہے۔وزیر اعظم پاکستان نوٹس لے چکے ہیں،اس نوٹس کو حقیقی نوٹس نظر آناچاہیے۔
Leave a Reply