rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
1947ء میں آزادی کے وقت پاکستان کو برطانوی ہند سے جو مالیاتی ڈھانچہ ورثے میں ملا، وہ انتہائی کمزور ہونے کے ساتھ ساھ غیر مستحکم بھی تھا۔ معاشی بنیادیں مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے آغاز ہی سے پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، صنعت و زراعت کی بحالی اور ہجرت سے متاثرہ آبادی کے مسائل کے حل کے لیے اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑا۔ ابتدائی دہائیوں میں یہ قرضے نسبتاً کم اور قابلِ انتظام تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی، ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات، بدعنوانی اور مالیاتی بدنظمی نے قرضوں کے بوجھ میں تسلسل سے اضافہ کیا۔ اور مملکت خدادا مقروض ہوتا چلا گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مارچ 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا مجموعی قرضے اور واجبات 89,834 ارب روپے کی خطرناک حد کو عبور کر چکے ہیں۔ یہ محض اعداد و شمار ہی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام بھی ہے کہ ملکی معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے اور خود انحصاری کی جانب گامزن کرنے کے لیے ٹھوس اور پائیدار اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
سال 2025ء میں پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا تخمینہ 26 ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جو ابتدا میں نہایت کٹھن نظر آتا تھا۔ تاہم موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے اس ہدف کو قابلِ عمل بنا دیا۔ مالی سال 2025ء کی تین سہ ماہیوں (جولائی تا مارچ) میں 7.47 ارب ڈالر بطور خالص قرض واپس کیے گئے، جبکہ سود کی مد میں 3.99 ارب ڈالر ادا کیے گئے۔ اس طرح کل 11.46 ارب ڈالر کی غیر ملکی ادائیگیاں مکمل کی گئیں۔
خاص طور پر پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر 2.13 ارب ڈالر قرض واپسی اور 1.34 ارب ڈالر سود کی ادائیگی ہوچکی ہے۔ دوسری سہ ماہی اکتوبر تا دسمبر 4.17 ارب ڈالر قرض واپسی، جس میں 1.39 ارب ڈالر سود شامل تھا۔ تیسری سہ ماہی جنوری تا مارچ 3.81 ارب ڈالر کی ادائیگیاں، جن میں 1.26 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کیے گئے۔
یہ ادائیگیاں بتاتی ہیں کہ حکومت نے شدید مالی دباؤ کے باوجود ذمہ دارانہ انداز میں اپنے قرضوں کی واپسی کا عمل جاری رکھا، جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ 1.80 ارب ڈالر سرپلس میں رہا، جو غیر معمولی کامیابی سمجھی جا سکتی ہے۔
اس کامیابی کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں جن میں سرفہرست اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے رقوم کی بڑھتی ترسیلات زر ہیں۔ آئی ایم ایف، چین، سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک کی مالی معاونت بھی شامل ہے۔درآمدات میں کمی اور برآمدات کو فروغ دینے کی پالیسیوں کا مثبت اثر بھی اس کامیابی کی وجہ بنی ہے۔
پاکستان کی قرضوں کی تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ریاستی پالیسیاں، سیاسی ترجیحات، اور اقتصادی حکمت عملیوں کی کامیابیاں اور ناکامیاں صاف نظر آتی ہیں۔ ایک جانب یہ سچ ہے کہ ملک نے مسلسل بیرونی قرضوں کا سہارا لیا ہے، لیکن دوسری طرف حالیہ اقدامات یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر دیانتدارانہ، شفاف اور مستقل بنیادوں پر اصلاحاتی اقدامات کیے جائیں، تو نہ صرف قرضوں کی واپسی ممکن ہے بلکہ مستقبل میں خود کفالت کی راہ بھی ہموار کی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اس امر کا ثبوت ہیں کہ جب قومی مفاد کو اولین ترجیح دی جائے تو کٹھن ترین معاشی اہداف بھی قابل حصول بن سکتے ہیں۔ تاہم یہ وقت وقتی کامیابیوں پر اکتفا کرنے کا نہیں بلکہ پائیدار معاشی ڈھانچہ قائم کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں چند سفارشات پیش خدمت ہیں وہ یہ کہ قرض لینے کے بجائے قومی آمدنی بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ٹیکس نیٹ کو وسیع کر کے ٹیکس وصولی کو بہتر بنایا جائے۔ ترسیلات زر کو باضابطہ ذرائع سے لانے کے لیے مزید سہولیات دی جائیں۔ برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے صنعتوں کو فعال اور معاون بنایا جائے۔ اور سود کی ادائیگی میں کمی کے لیے اندرونی وسائل کو بڑھایا جائے۔
اگر ریاست، معیشت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو جائے، تو پاکستان قرضوں سے نجات حاصل کر کے خود انحصاری کی روشن منزل کی طرف رواں ہو سکتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply