Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان کا تجارتی خسارہ: ماضی، حال اور مستقبل

Articles , Snippets , / Monday, May 5th, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

دنیا کی ہر معیشت کی بقا اور ترقی کا انحصار اس کے تجارتی توازن پر ہوتا ہے۔ جب کسی ملک کی درآمدات اس کی برآمدات سے بڑھ جائیں تو تجارتی خسارہ جنم لیتا ہے، اور یہی خسارہ بالآخر کرنسی کی قدر، مہنگائی، قرضوں اور زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو اس مسئلے کا سامنا اس کے قیام کے ابتدائی دنوں سے ہے، اور یہ مسئلہ وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
1950 اور 1960 کی دہائیوں میں پاکستان کی معیشت زرعی بنیادوں پر استوار تھی اور برآمدات کا انحصار کپاس، چاول اور دیگر اجناس پر تھا۔ تاہم صنعتی ترقی کی کمی، ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی اور پالیسیوں کے عدم تسلسل کے باعث یہ معیشت مضبوط تجارتی ڈھانچے میں تبدیل نہ ہوسکی۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں درآمدات میں اضافے اور برآمدی تنوع کی کمی کے باعث تجارتی خسارہ بڑھنے لگا۔
2005 میں تجارتی خسارہ 4.15 ارب ڈالر تھا، جو 2010 میں بڑھ کر 11.53 ارب ڈالر ہوگیا۔ 2019 میں ڈالر بحران نے معیشت کو ایک نئے بحران میں مبتلا کر دیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ، کرنسی کی قدر میں کمی اور درآمدات کی لاگت میں اضافے نے تجارتی توازن کو مزید بگاڑ دیا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی 2024 سے اپریل 2025 کے عرصے میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 8.81 فیصد کے اضافے کے ساتھ 21.35 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ صرف اپریل 2025 میں تجارتی خسارے میں سالانہ بنیادوں پر 35.79 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ اس مہینے میں برآمدات 2.141 ارب ڈالر جبکہ درآمدات 5.529 ارب ڈالر رہیں، جو معیشت کے لیے شدید خطرے کی گھنٹی ہے۔
تجارتی خسارے کے اسباب بے شمار ہیں جن میں سرفہرست برآمدات میں کمی اور تنوع کا فقدان ہے، پاکستان کی برآمدات روایتی شعبوں (ٹیکسٹائل، چاول، چمڑا) تک محدود ہیں۔ جدید مصنوعات، آئی ٹی، انجینئرنگ، بایو ٹیکنالوجی میں برآمدی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ صنعتی خام مال، مشینری، تیل، کیمیکل، ادویات، اور یہاں تک کہ خوردنی اشیاء بھی بڑی مقدار میں درآمد کی جاتی ہیں۔قیمتی گاڑیوں، موبائل فونز، لگژری اشیاء کی بلا روک ٹوک درآمد ملکی زرمبادلہ پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کی صنعتیں زرعی پیداوار پر انحصار کرتی ہیں، مگر فی ایکڑ پیداوار میں مسلسل کمی صنعتی عمل کو متاثر کر رہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت معاشی اصلاحات کے لیے کوشاں ہے، تاہم تجارتی خسارے کا یہ حال محض بیانیوں سے بہتر نہیں ہوگا۔ متعلقہ وزارتوں کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور اس پر عملی و فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ درآمدی بجٹ پر نظرثانی، مقامی صنعتوں کی بحالی، برآمدی شعبے کو مراعات، اور زرعی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند سفارشات پر عمل کیا جائے، برآمدی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ نئی مصنوعات اور نئی منڈیاں تلاش کی جا سکیں۔ زرعی انقلاب کے لیے سائنسی تحقیق اور جدید مشینی زراعت کو فروغ دیا جائے تاکہ خام مال کی مقامی پیداوار بڑھے۔ اشیائے تعیش کی درآمدات پر بھاری ٹیکس اور پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو۔ برآمدات کے لیے سفارتی و تجارتی حکمت عملی مرتب کی جائے، تاکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی ممکن ہو۔ صنعتی زونز میں انفراسٹرکچر اور توانائی کی فراہمی بہتر بنائی جائے تاکہ مقامی پیداوار میں اضافہ ہو۔
پاکستان کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ صرف اقتصادی اعدادوشمار کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ قومی خودمختاری، مالی سلامتی، اور سماجی استحکام کا سوال بھی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں جھانکا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پائیدار پالیسی، ادارہ جاتی ہم آہنگی، اور قومی سطح پر معیشت کو اولین ترجیح دیے بغیر ہم اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اب وقت آچکا ہے کہ فیصلے فقط کاغذوں پر نہیں، زمینی حقائق میں جھلکتے ہوئے نظر آئیں۔ کیا ارباب اختیار ملک کے تجارتی خسارے کے اسباب کے بارے میں خود کو جھنجوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے؟

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International