rki.news
تحریر: احسن انصاری
پاکستان 10 جون 2025 کو مالی سال 2025-26 کا بجٹ پیش کرے گا، جو اس بار ایک نئی معاشی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات، علاقائی کشیدگی، اور مالی نظم و ضبط کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے فوراً بعد بجٹ پیش کریں گے، جبکہ 9 جون کو پاکستان اکنامک سروے جاری کیا جائے گا جو ملک کی حالیہ معاشی کارکردگی کا جائزہ پیش کرے گا۔
مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے جو مئی 2025 میں 3.5 فیصد تک آ گئی ہے، جبکہ دو سال پہلے یہ تقریباً 38 فیصد تھی۔ جی ڈی پی کا حجم 400 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جو معیشت کی بحالی کی علامت ہے۔ تاہم، دفاعی اخراجات میں اضافہ اور آئی ایم ایف سے تاحال مکمل معاہدے کا نہ ہونا مستقبل کو غیر یقینی بنا رہا ہے۔
ترقیاتی اخراجات کے لیے حکومت نے رقم بڑھا کر ایک کھرب روپے کر دی ہے، جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے، توانائی، پانی، اور ٹرانسپورٹ منصوبوں کو تقویت دینا ہے۔ چمن-کوئٹہ-کراچی کو ملانے والی N25 ایکسپریس وے کو خاص فنڈز دیے جا رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، اور ڈیجیٹل شعبے میں بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، خاص طور پر آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں۔
وزیر خزانہ نے بجٹ میں ایک بڑے اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے، جس میں ٹیکس نظام کو آسان بنانا مرکزی نکتہ ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس فائلنگ کے مراحل کو کم کر کے 9 تک لایا جائے، جو ستمبر 2025 تک مکمل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل، خاص طور پر پی آئی اے کی بحالی، بھی شامل ہے۔ قرضوں کی ادائیگی پر بوجھ کم کرنے اور سرکاری دفاتر کو جدید بنانے کے لیے بھی بڑے اقدامات متوقع ہیں۔
ورلڈ بینک کے 10 سالہ پارٹنرشپ فریم ورک کے مطابق، بجٹ میں برآمدات پر مبنی ترقی اور عالمی مسابقت کو فروغ دینے پر زور دیا جا رہا ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ مالی پالیسیوں کو عالمی ترقیاتی اہداف سے ہم آہنگ کیا جائے۔
مختلف صنعتی شعبے بھی بجٹ میں اپنی ترجیحات کے لیے سرگرم ہیں۔ سیمنٹ انڈسٹری ٹیکس میں ریلیف کی خواہاں ہے، تاکہ مقامی اور برآمدی منڈی کو فروغ دیا جا سکے۔ دفاعی بجٹ میں اضافے کی توقع ہے، حالیہ سرحدی کشیدگی کے پیش نظر۔ توانائی اور پانی کے منصوبے، جنہیں قومی استحکام کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے، بجٹ میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات مکمل نہیں ہو سکے، اگرچہ 10 روزہ بات چیت ہوئی۔ آئی ایم ایف کا زور ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے بجائے اس کے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔ وزیر خزانہ نے اس مؤقف کی تائید کی ہے۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر مذاکرات کا کچھ حصہ اسلام آباد سے ترکی منتقل کرنا پڑا۔
عید الاضحیٰ کے دوران بجٹ کی حتمی منظوری دی جائے گی۔ 9 جون کو اکنامک سروے، اور 10 جون کو بجٹ کی پارلیمنٹ میں پیشی، بجٹ عمل کے اہم مراحل ہیں۔ نیا مالی سال 1 جولائی سے شروع ہوگا۔
حکومت کو کئی متضاد ترجیحات کا توازن قائم کرنا ہوگا: دفاعی اخراجات، ترقیاتی سرمایہ کاری، اور اصلاحات کی رفتار۔ ریاستی اداروں کی نجکاری، ٹیکس نظام میں سادگی، اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی پالیسیوں کو متوازن انداز میں لاگو کرنا ہوگا۔ ورلڈ بینک کے ساتھ ہونے والے معاہدے بھی ماحولیاتی لچک کو مالی منصوبہ بندی کا لازمی جزو بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے اپیل کی ہے کہ جیسا قومی اتحاد حالیہ بیرونی چیلنجز میں نظر آیا، ویسا ہی اتفاق معیشت کے میدان میں بھی ہونا چاہیے۔ بجٹ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اصلاحات کو عملی جامہ کس حد تک پہنایا جاتا ہے۔
یہ بجٹ محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں بلکہ پاکستان کے مالی نظم، حکمرانی، اور طویل مدتی وژن کا امتحان ہے۔ اگر حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، تو 2047 تک 3 کھرب ڈالر کی معیشت بننے کا خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
(Email: aahsan210@gmail.com
Leave a Reply