(تحریر احسن انصاری)
پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی ایک بار پھر شائقین کے لیے مایوسی کا باعث بنی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 میں قومی ٹیم کی کارکردگی توقعات کے بالکل برعکس رہی، جہاں مسلسل دو شکستوں نے ٹیم کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے نیوزی لینڈ کے خلاف 60 رنز سے شکست ہوئی اور پھر بھارت کے خلاف 6 وکٹوں سے ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ناکامیوں نے ٹیم کی کمزوریوں کو نمایاں کر دیا ہے، اور گروپ اے میں پاکستان کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ اس وقت ٹیم کا نیٹ رن ریٹ -1.087 ہے، اور سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات کافی کم ہو گئے ہیں۔ اگلا میچ 27 فروری کو بنگلہ دیش کے خلاف ہوگا، جس میں کامیابی نہایت ضروری ہے تاکہ ٹیم کے ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کی امید برقرار رہے۔ تاہم، حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے، یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹیم ایک مستحکم کم بیک کر سکے گی۔
پاکستان کرکٹ کے زوال کی وجوہات کئی پہلوؤں پر مشتمل ہیں، جن میں ناقص ڈومیسٹک کرکٹ، تکنیکی کمزوریاں، انتظامی بدنظمی، اور مسلسل بدلتی قیادت شامل ہیں۔ ملک میں کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار عالمی سطح پر دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ جدید سہولیات، پیشہ ورانہ کوچنگ اور معیاری پچز کی عدم موجودگی کھلاڑیوں کی بین الاقوامی کرکٹ کے لیے تیاری کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک کھلاڑی ڈومیسٹک سطح پر کمزور پچز اور غیر معیاری باؤلنگ کا سامنا کرتا ہے، تو وہ عالمی کرکٹ میں بہتر پرفارم کرنے میں مشکلات محسوس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے، پاکستانی بلے باز غیر ملکی پچوں پر باؤنس اور سوئنگ کے خلاف مزاحمت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہی مسئلہ باؤلرز کے ساتھ بھی ہے، جو آخری اوورز میں لائن اور لینتھ برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
انتظامی مسائل بھی ٹیم کی ناکامی کی بڑی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) میں بار بار کی تبدیلیاں، غیر مستقل مزاجی، اور اقربا پروری کے باعث ایک مستحکم ٹیم اور کوچنگ اسٹاف تیار نہیں ہو پایا۔ جب کپتان اور کوچ بار بار بدلے جاتے ہیں، تو کھلاڑیوں کے لیے طویل المدتی حکمت عملی بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیم کے انتخاب میں میرٹ کی بجائے تعلقات، سیاست، اور ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے باعث باصلاحیت کھلاڑی مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر کرکٹ بورڈ میں شفافیت اور پیشہ ورانہ طرزِ عمل کو فروغ نہ دیا گیا، تو پاکستان کرکٹ کی بحالی ایک خواب ہی رہے گی۔
پاکستان کرکٹ میں ایک اور بڑا مسئلہ ذہنی مضبوطی کا فقدان ہے۔ کھلاڑیوں پر عوام اور میڈیا کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دباؤ میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر شدید تنقید کی جاتی ہے، اور اکثر اوقات انہیں ذاتی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، کھلاڑی دفاعی حکمت عملی اختیار کر لیتے ہیں اور میچ کے اہم لمحات میں دباؤ کا شکار ہو کر غلط فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹیم میں ایک لیڈر کی کمی بھی محسوس کی جا رہی ہے جو کھلاڑیوں کو متحد رکھ سکے اور میدان میں اعتماد فراہم کر سکے۔
پاکستان کرکٹ کے زوال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ پر توجہ کم ہوتی جا رہی ہے، جبکہ ٹی20 فارمیٹ کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان سپر لیگ (PSL) کے آغاز کے بعد سے، کھلاڑیوں کا جھکاؤ زیادہ تر ٹی20 کرکٹ کی طرف ہو گیا ہے، جس کے باعث تکنیکی اعتبار سے مضبوط کھلاڑیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ دنیا کی بہترین ٹیمیں ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کو بنیادی اہمیت دیتی ہیں اور وہاں سے بہترین کھلاڑی ابھرتے ہیں۔ اگر پاکستان نے بھی اپنی طویل مدتی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، تو اسے تمام فارمیٹس میں توازن قائم کرنا ہوگا۔
عوامی ردِ عمل بھی پاکستان کرکٹ کی صورتحال پر انتہائی شدید ہے۔ مداح ٹیم کی ناقص کارکردگی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر میمز، تنقیدی پوسٹس، اور کھلاڑیوں کے خلاف سخت بیانات عام ہو چکے ہیں۔ بعض مداح تو مایوسی کی وجہ سے ٹیم کے میچ دیکھنا بھی چھوڑ چکے ہیں، جبکہ کچھ اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ٹیم کسی نہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرے گی۔ ماضی کے سنہری لمحات، جیسے 1992 کا ورلڈ کپ اور 2009 کی ٹی20 فتح، آج بھی شائقین کے ذہنوں میں تازہ ہیں، اور اسی لیے حالیہ ناکامیاں ان کے لیے ناقابلِ قبول ہو رہی ہیں۔
پاکستان کرکٹ کو بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ڈومیسٹک کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے۔ اچھی پچز، جدید کوچنگ، اور سخت مسابقتی ماحول کھلاڑیوں کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، سلیکشن کے عمل کو مکمل طور پر میرٹ پر مبنی بنایا جائے، تاکہ باصلاحیت کھلاڑیوں کو موقع مل سکے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان کے کھلاڑی اکثر انجریز کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
مزید برآں، قیادت میں تسلسل قائم کرنا ضروری ہے۔ بار بار کپتان اور کوچ کو تبدیل کرنا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر پی سی بی ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ٹیم کی تعمیر کرے، تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی کے لیے ماہرین نفسیات کی خدمات لی جانی چاہئیں تاکہ وہ دباؤ میں کھیلنے کی مہارت حاصل کر سکیں۔ ساتھ ہی، پی سی بی کو شائقین کے ساتھ شفاف اور موثر روابط قائم کرنے چاہئیں تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو سکے۔
پاکستان کرکٹ کی بحالی ممکن ہے، مگر اس کے لیے فوری اور مستقل نوعیت کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ صرف جوش و جذبے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ سنجیدہ اور پیشہ ورانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اگر درست اقدامات کیے جائیں، تو پاکستان کرکٹ ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر سکتی ہے اور عالمی کرکٹ میں ایک بار پھر نمایاں مقام حاصل کر سکتی ہے۔
اسپورٹس تجزیہ کاروں نے 2025 چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی مایوس کن کارکردگی پر مختلف آراء پیش کی ہیں۔ کئی ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ ٹیم کی ناکامی کی بنیادی وجوہات میں غیر مستقل مزاجی، ذہنی مضبوطی کی کمی اور پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کی انتظامی بدنظمی شامل ہیں۔ آکاش چوپڑا، جو کہ سابق بھارتی کرکٹر اور تجزیہ کار ہیں، نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے اور وہ حیران کن فتوحات حاصل کر سکتا ہے، لیکن اس کی غیر یقینی کارکردگی اسے کمزور بھی بناتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی ٹیم آئی سی سی ٹورنامنٹس کے دباؤ میں بارہا ناکام رہی ہے، اور یہ مسئلہ ٹیم کی سب سے بڑی کمزوری بن چکا ہے۔ ان کے مطابق، بھارت کے خلاف آئندہ میچ پاکستان کے لیے ایک کڑا امتحان ہوگا، جو اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا ٹیم دباؤ برداشت کرنے کے قابل ہو چکی ہے یا نہیں۔
اسپورٹس کے تجزیہ کاروں نے بھی چیمپئنز ٹرافی سے قبل PCB میں جاری سیاسی اور انتظامی مسائل کو ٹیم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 2022 سے 2024 کے دوران بورڈ میں ہونے والی بار بار تبدیلیوں اور قیادت میں عدم استحکام نے ٹیم کو شدید نقصان پہنچایا۔ سلیکشن کے معاملات میں ہونے والے تنازعات اور غیر یقینی فیصلوں کی وجہ سے ایک مستحکم اور تیار ٹیم بنانے میں مشکلات پیش آئی۔
مزید برآں، ٹیم سلیکشن پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے، خاص طور پر ان کھلاڑیوں کی شمولیت پر جو طویل عرصے سے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خُشدل شاہ اور فہیم اشرف جیسے کھلاڑی، جو گزشتہ دو سال سے اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے، ٹیم کے لیے بوجھ بن سکتے ہیں۔ یہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے مسائل صرف تکنیکی نہیں بلکہ ذہنی اور انتظامی سطح پر بھی موجود ہیں۔ اگر ٹیم کو بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنی ہے تو اسے ان بنیادی چیلنجز کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
Leave a Reply