Today ePaper
Rahbar e Kisan International

*پاکستان کو درپیش مالی و ماحولیاتی بحران: آئی ایم ایف وفد کے دورے کی اہمیت*

Articles , Snippets , / Tuesday, February 25th, 2025

(تحریر احسن انصاری)

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایک وفد 24 سے 28 فروری 2025 تک پاکستان کا دورہ کر رہا ہے تاکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مالی معاونت اور ملکی معاشی ترقی کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ دورہ اس لیے اہم ہے کیونکہ پاکستان ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی ٹرسٹ (RST) کے تحت 1 سے 1.5 ارب ڈالر کی مالی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ساتھ ہی 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (EFF) پروگرام کی اگلی قسط کی تیاری بھی جاری ہے۔ یہ مذاکرات پاکستان کی معیشت کی بحالی، ماحولیاتی موافقت، اور طویل المدتی مالی پالیسیوں کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔

پاکستان اس وقت شدید معاشی اور ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جن میں افراطِ زر میں اضافہ، بڑھتا ہوا مالی خسارہ، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید موسم کی تباہ کاریاں شامل ہیں۔ آئی ایم ایف وفد کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومتی اصلاحات، ٹیکس پالیسیوں میں بہتری، اور مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانے کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ مذاکرات کی کامیابی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا پاکستان اپنی معیشت اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے درکار مالی وسائل حاصل کر سکتا ہے یا نہیں۔

پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سیلاب، ہیٹ ویوز، اور خشک سالی نے ملکی انفراسٹرکچر، زراعت، اور لوگوں کے روزگار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد غربت کا شکار ہو گئے اور حکومتی وسائل پر مزید دباؤ بڑھ گیا۔ ان مسائل کے حل کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی ٹرسٹ (RST) کے تحت نرم شرائط پر قرض کی باضابطہ درخواست دی ہے۔ یہ پروگرام ان ممالک کے لیے بنایا گیا ہے جو طویل المدتی ماحولیاتی تحفظ کی حکمت عملی تیار کرنا اور قابل تجدید توانائی کے منصوبے نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ قرض منظور ہو جاتا ہے، تو اس رقم کو سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں، قابل تجدید توانائی کے فروغ، اور پائیدار زرعی طریقوں پر خرچ کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف وفد پاکستان کی ماحولیاتی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اگر فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، تو وہ مؤثر طریقے سے استعمال ہوں۔ حکومت ایک جامع روڈ میپ پیش کرے گی، جس میں بتایا جائے گا کہ یہ رقم کیسے خرچ کی جائے گی، اصلاحات کیسے نافذ کی جائیں گی، اور مستقبل میں ماحولیاتی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔

ماحولیاتی مالی معاونت کے علاوہ، آئی ایم ایف وفد پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور ادارہ جاتی طرزِ حکمرانی کا بھی تفصیلی جائزہ لے رہا ہے۔ اس دوران اہم سرکاری اداروں جیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)، اور آڈیٹر جنرل آفس کے ساتھ ملاقاتیں کی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف خاص طور پر پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں اضافے، شفافیت کے فروغ، اور مالی بے ضابطگیوں پر قابو پانے کی کوششوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پنشن سسٹم میں اصلاحات اور سود کی شرح میں کمی متعارف کرائی ہے، جس سے سرمایہ کاروں کو سہولت ملنے اور معیشت کے استحکام کی توقع کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، حکام ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر مزید شعبوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہو، جو کہ آئی ایم ایف کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ تاہم، چیلنجز بدستور برقرار ہیں۔ پاکستان اب بھی بڑے مالی خسارے، بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں، اور سست معاشی ترقی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ مہنگائی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے، جو عوام کی قوتِ خرید اور کاروباری اعتماد کو متاثر کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف امکاناً مزید سخت معاشی اصلاحات پر زور دے گا، جن میں مالی نظم و ضبط، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، اور بہتر ریگولیٹری نگرانی شامل ہیں۔

یہ دورہ مارچ 2025 میں ہونے والے دوسرے آئی ایم ایف وفد کے دورے کے لیے بھی بنیاد فراہم کر رہا ہے، جس میں جولائی تا دسمبر 2024 کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ فیصلہ ہوگا کہ آیا پاکستان 7 ارب ڈالر کے EFF پروگرام کی اگلی 1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کا اہل ہے یا نہیں۔

مارچ میں ہونے والے جائزے کے اہم نکات جن میں پاکستان کی مہنگائی پر قابو پانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کی صلاحیت، ٹیکس آمدنی میں اضافے اور مالی خسارے میں کمی کی پیش رفت اور توانائی، تجارت، اور سرکاری شعبے میں اصلاحات لانا ہے۔ اگر یہ جائزہ کامیاب رہا، تو پاکستان کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط تک رسائی حاصل ہو جائے گی، جو کہ مالی استحکام برقرار رکھنے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان معاشی بحالی کے راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حالیہ ٹیکس اصلاحات، پنشن پالیسی میں تبدیلیاں، اور حکومتی اخراجات میں کمی کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حکومت غیر ضروری اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، اور غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو فروغ دینے پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ تاہم، پاکستان کو اب بھی بڑے معاشی اور ساختی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ، سیاسی عدم استحکام، اور توانائی کے بحران کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست ہے۔ مزید برآں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ایک طویل المدتی خطرہ بن چکے ہیں، جو زراعت، پانی کے وسائل، اور بنیادی ڈھانچے کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو مسلسل پالیسی اقدامات، مضبوط مالی نظم و نسق، اور بین الاقوامی معاونت کی ضرورت ہوگی۔

آئی ایم ایف وفد کا یہ دورہ پاکستان کی معاشی بحالی اور ماحولیاتی تحفظ کی حکمت عملی کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، تو پاکستان ضروری مالی معاونت حاصل کر سکے گا، مالیاتی نظم و نسق بہتر بنا سکے گا، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر سکے گا۔ تاہم، حکومت کو سخت اقتصادی اصلاحات جاری رکھنی ہوں گی، شفافیت کو فروغ دینا ہوگا، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مالی امداد مؤثر طریقے سے استعمال ہو۔ ان مذاکرات کے نتائج پاکستان کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کریں گے، جن کا تعلق عالمی مالیاتی چیلنجز سے نمٹنے، معیشت کے استحکام، اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مزاحمت سے ہوگا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International