ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے۔ ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے، اور زرعی شعبہ ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 19 فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود بھی زراعت کی ترقی میں کئی مشکلات کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان آج بھی کئی غذائی اشیاء درآمد کرنے پر مجبور ہے جو کہ ایک انتہائی سنگین صورت حال ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ سے زرعی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دریائے سندھ کی زرخیز وادی ہزاروں سالوں سے زراعت کا مرکز رہی ہے۔ قدیم تہذیبیں جیسے موہنجودڑو اور ہڑپہ اسی زرخیز علاقے میں پروان چڑھیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان نے اپنی زرعی بنیاد کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی، مگر کمزور زرعی پالیسیوں اور انتظامی کمزوریوں کی بنا پر حقیقی ترقی حاصل نہ ہو سکی۔
آج پاکستان کو کئی زرعی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور موجودہ آبپاشی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فقدان ہے۔ اس کی وجہ سے پیداوار کم اور لاگت زیادہ آرہی ہے۔ جو کہ مہنگائی کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں زرعی تحقیق اور ترقی پر بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے نئی تکنیکوں اور بیجوں کی کمی کہ وجہ سے زراعت کا شعبہ کمزور ہو رہا ہے۔
شروع دن سے ہی زرعی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام کی کمی رہی ہے۔ مختلف حکومتوں نے مختلف اوقات میں چند پالیسیاں نافذ کیں جن کا تسلسل نہ ہونے کے برابر ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے صوبے میں 400 ارب روپے کے تاریخی کسان پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ اس پیکیج کا مقصد زراعت کے شعبے کو فروغ دینا اور کسانوں کو مراعات فراہم کرنا ہے۔ اس پیکیج کے تحت کئی اہم اقدامات شامل ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
پنجاب کسان بینک: اس بینک کے ذریعے 6 سے 50 ایکڑ تک اراضی کے مالک کاشتکاروں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
گرین ٹریکٹر اسکیم: اس اسکیم کے تحت کسانوں کو چھوٹے ٹریکٹر پر 70 فیصد اور بڑے ٹریکٹر پر 50 فیصد سبسڈی دی جائے گی۔
مقامی زرعی آلات کی تیاری: ہارویسٹر اور دیگر زرعی آلات کی مقامی طور پر تیاری کی جائے گی۔
آئل سیڈ پروموشن پروگرام: اس پروگرام کا مقصد تیل کے بیج کی پیداوار کو فروغ دینا ہے۔
شمسی توانائی اور قطراتی آب پاشی اسکیم: ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا اور قطراتی آب پاشی نظام کو فروغ دیا جائے گا۔
کسان کارڈ اسکیم:حکومت نے کسانوں کے لئے کسان کارڈ اسکیم منظور کی ہے جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف 48 گھنٹوں میں 47 ہزار فارمز کی رجسٹریشن ہو چکی ہے۔ اس اسکیم کے تحت کسانوں کو مختلف مراعات اور سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
زرعی ترقی کے لئے کچھ مزید اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
نئی زرعی تکنیکوں اور بیجوں کی تحقیق کے لئے مزید سرمایہ کاری کی جائے۔
پانی کی بچت کے لئے جدید آبپاشی نظام متعارف کرائے جائیں۔
کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں کی تربیت فراہم کی جائے۔
زرعی اجناس کی بہتر مارکیٹنگ کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ بروقت مل سکے۔
زرعی پالیسیاں بنانے میں استحکام اور تسلسل کا خیال رکھا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان کی زرعی ترقی کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ گوکہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی جانب سے 400 ارب روپے کے کسان پیکیج کی منظوری ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مزید دیگر صوبوں کے لیے مزید اقدامات اور زرعی پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت اور کسان مل کر کام کریں تو پاکستان ایک بار پھر سے زرعی شعبے میں خود کفیل بن سکتا ہے اور موجودہ معاشی مشکلات پر تیزی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply