دوستو اگست کا مہینہ شروع ہو گیا ہے ، ھم برصغیر والوں کے لئیے یہ مہینہ بہت اہم ہے ، اسی مناسب سے یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں، امید ہے پسند آئے گا ، یہ چودہ قسطوں پر مشتمل ہمارے دیس کی کہانی ہے ، جو کچھ سال پہلے اردوستان ڈاٹ کام پر پیش کی جا چکی ہے ، اس وقت یونی کوڈ موجود نہ تھا اسلئے اب اسے یونی کوڈ میں پیش کر رہا ہوں
یہ ایک غیر جانب دارانہ مطالعہ ہے ہماری تاریخ کا ، مگر ہو سکتا ہے اس میں میری پاکستانیت اور اسلامیت چھلک ہی جائے ، اور مجھ سے اگر کوئی غلط بیانی ہو جائے یا کوئی میری کسی بات کی تصیح کرے تو میں اسے خوش آمدید کہوں گا ، میرا بنیادی مقصد اپنے پاس موجود معلومات کو آپ تک پہنچانا ہے ۔ ۔
————————————————————————–
ابتدائیہ
——-
غلامی شاید برصغیر کی قسمت ہے ، ہزاروں سال پہلے آریہ لوگوں نے ہمالیہ کے دروں سے آ کر یہاں کے رہنے والوں کو غلام بنایا ، پھر یہاں ایک عظیم تہذیب نے جنم لیا جسے تاریخ دان دریائے سند کی تہذیب بھی کہتے ہیں ، پھر یہ تہذیب پھیلی اور گنگا ، جمنا اور سرسوتی دریاؤں نے اسے پروان چڑھایا ، اور دریائے بیاس کے کنارے ایک بڑے مذہب نے جنم لیا جسے ہم بدھ مت کے نام سے جانتے ہیں (یہاں میں واضح کر دوں کہ ہندو مت مذہب نہیں ہے تھا بلکہ ایک نظام تھا ۔ ۔ ۔ جسے فاتح لوگوں نے وضح کیا تھا ) ۔ ۔ اشوک اعظم کے زمانے میں یہاں کی تہذیب نے ترقی کی اور یونان اور روم کی تہذیب کی امیزیش سے ایک عظیم تہذیب نے عروج پایا جسکے آثار ٹیکسلا اور کلکتہ و بنارس کے قدیم کھنڈروں میں دیکھے جا سکتے ہیں
بدھ مت کا عروج اشوک کے دور سے شروع ہوا اور مشرق بعید تک پھیلا ، مگر اشوک کے بعد ہندوستان ریاستوں میں تقسیم ہوتا چلا گیا اور مسلمانوں کی آمد تک برصغیر بہت ساری ریاستوں میں تقسیم ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر مسلمانوں کے بعد انگریزوں ، پرتگیزیوں فرانسسیوں وغیرہ نے بھی ہندوستان کو متحد نہ کیا ۔ ۔ ۔ اور پھر یہ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تکون میں ڈھل گیا ۔ ۔ ۔ ۔
———————————–
(جاری ہے )
Leave a Reply