دوسرا حصہ (دریائے سندھ کی تہذیب)
تحریر: اظہرالحق نسیم
برصغیر میں قدیم ترین انسانی آثار پوٹھوہار کی وادی میں دریائے سواں کے کنارے ملے ہیں ، جن سے پتہ چلتا ھے کہ پتھر کے اوزار استعمال کرنے والے انسان بھی اسی دھرتی پر موجود تھے ، دریائے سواں آج بھی راولپنڈی شہر میں بہتا ہے مگر اب وہ صرف ایک نالہ بن کہ رہ گیا ہے ۔ ۔ ۔
جس مصدقہ تاریخ کا ہمیں سُراغ ملتا ہے وہ تقریباً سات ہزار (٧٠٠٠) قبل مسیح کی ہے ، پرانی ویدوں کے مطابق ودیا یہاں کے باشندے تھے اور آریوں نے آ کر ان پر حکومت کی ، کچھ محققین کے مطابق ودیا اور آریا کوئی قومیں نہیں بلکہ زبانیں تھیں ، مگر کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ دریائے سند کے کنارے ایک عظیم تہزیب نے جنم لیا جسکے آثار ہمیں پانچ ہزار سال پرانے موئن جو داڑو میں نظر آتے ہیں ۔ موئن جو داڑو کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہاں سے سو سے کم لوگوں کے ڈھانچے ملے میں (جو میرے خیال میں اس شہر کے باسیوں کے نہیں ہیں ) اور شہر بالکل ایسا ملا ہے کہ جیسے کوئی بسے بسائے شہر کو چھوڑ کر چلا گیا ہو ، نہ کوئی قبرستان نہ کوئی شمشان گھاٹ ۔۔۔۔۔ اگر وہ لوگ مردوں کو جلاتے تو جلانے کی جگہ ملتی اور اگر دفناتے تو قبرستان ملتا مگر ایسا کچھ نہیں ملا میرا اپنا خیال ہے کہ وہ مردوں کو کھا جاتے ہوں گے ۔ ۔ ۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دریا میں بہا دیتے ہوں!!!!!!
ہم اگر ذرا آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ہڑپہ نظر آتا ہے پنجاب میں تقریباً چار ہزار سال پرانی اس تہذیب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ کتنے علوم و فنون سے واقف تھے ، گو اس وقت تک ہڑپہ اور موئن جو داڑو کی تحریریں نہیں پڑھیں جا سکیں مگر کچھ محققین کے خیال میں یہ دیوناگری رسم الخط کی بنیاد ہیں ، کچھ کے مطابق یہ قدیم مصری یا یونانی زبانوں سے اخذ ہیں ۔ ۔۔ مگر خیر ہمارا موضوع اس وقت لسانیات نہیں ہے کہ ان تفصیلات میں جا سکیں ۔ ۔ ۔ اس پر پھر کبھی سہی ۔ ۔۔
دریائے سندھ کی تہذیب کو ہم تین ہزار قبل مسیح سے لیکر پندرہ سو قبل مسیح تک گردانتے ہیں ، ان پندرہ سو سالوں میں دریائے سندھ کی تہذیب نے عروج پایا اور جس کی بنیاد پر آرینز نے پندرہ سو قبل مسیح میں قبضہ کیا اور اس تہذیب کو گنگا جمنا اور سرسوتی کی وادیوں میں پھیلا دیا ۔ ۔ ۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ وہ خطہ جسے آج ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں ، کبھی بھی کیسی ایک حکمران کے پاس نہیں رہا (سوائے اشوک اعظم کے) اور ہمیشہ افغانستان و ایران سے ملنے والوں درے اس خطے کا نشانہ رہے ۔ ۔ ۔ جنکا پتہ ہمیں آریوں ، یونانیوں اور ایرانیوں کے قدیم حملوں سے ملتا ہے ۔ ۔
وہ درہ خیبر ہو یا بولان یا پھر قراقرم کی شاہراہ ، ان راستوں نے ہمیشہ برصغیر کو ساری دنیا سے ملائے رکھا ، اور حملہ آوروں کو بھی سہولت رہی ہے ، درے انہیں کیموفلاج کرتے رہے ، صرف مسلمان اس خطے پر سمندر کے راستے آئے ( محمود غزنوی اور محمد بن قاسم ) نے دیبل (موجودہ کراچی ) کے راستے اس خطے پر قدم رکھا ۔ ۔ ۔
تو یہ تھی کچھ کہانی ، دریائے سندھ کی تہذیب کی ، جو تین ہزار سے پندرہ سو قبل مسیح تک ہے ، اگلی قسط میں انشااللہ اسکے بعد کے ادوار کا ذکر ہو گا ۔ ۔ ۔
چلتے چلتے ایک حدیث یاد آ گئی ، جو اس سندھ کے توسط سے ہے ، جب نبی کریم (ص) یمن میں تجارت کی غرض سے تشریف لے گئے ، تو انہوں نے اپنے غلام میسرہ سے سندھ کے تاجروں کی طرف اشارہ کر کہ کہا تھا ، کہ یہ سندھ کے تاجر ہیں ، سبحان اللہ ، یعنی موجودہ سندھ کا لفظ ہمارے نبی کریم (ص) کی زبان مبارک سے ادا ہوا ہوا ہے جو بعد میں اسی خطے کا باب السلام کہلایا ۔ ۔ ۔ ۔
(جاری ہے )
Leave a Reply