سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دفاعی معاہدہ بظاہر انتہائی مفید نظر آتا ہے جبکہ اس کے تحفظات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آج کل اکثر ممالک کے داخلی اور خارجی معاملات ذو معنی ہوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی حفاظت کے لیے ہمارے جان و مال بھی حاضر ہیں لیکن دیگر معاملات کے مختلف پہلوؤں پر بھی انتہائی غور و خوض کے بعد حتمی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی قوتیں اپنے مفاد میں اقدام لیتے وقت کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کو بھی نظر انداز کر دیتی ہیں لہذا دیگر ممالک کو بھی اپنے مفاد کو اولین ترجیح دینے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاک سعودی دفاعی معاہدے میں ایسی شِق ضرور شامل کی ہوگی کہ اگر مدِ مقابل مسلم یا دوست ممالک ہوں تو ان کے خلاف کسی حتمی ردِ عمل سے پہلے گفت و شنید کی گنجائش ہونی چاہئے تاکہ ان ممالک کے خلاف شدید کاروائی سے پہلے اپنی پارلیمنٹ سے منظوری لے کر عوام کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔
زندگی کا یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے
جنگ کسی اپنے سے ہو تو ہار جانا چاہیے
شہزادہ ریاض
Leave a Reply