rki.news
(خسروؔ میں شہر شہر پھروں، کوبکو رہوں)۔ (نئی جگہ، نئے لوگ، نئے تجربات)۔ (ہمارے دو ٹرینی سائیکالوجسٹ)۔ (ابا کی بیماری)۔ (قبل از وقت سبکدوشی کا فیصلہ)}
پی ایے ایف کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ میں کیڈٹس کو پڑھاتے بمشکل چند ماہ ہوئے تھے کہ ایک روز شعبہ کے سربراہ (ونگ کمانڈر مخدوم) نے ہمیں بلاکر کہا کہ کمانڈنٹ کے احکامات ہیں آپ پندرہ دن کے لیے رجسٹرار کی جگہ کام کریں وہ چھٹی پر ہیں۔ ہم نے انکار کیا کہ ہمیں پڑھانا اچھا لگتا ہے آپ کسی اور کو یہ کام دے دیں۔ اس پر وہ بولے اگر مجھے کہا جائے تو میں اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا آپ کو اندازہ نہیں۔ غرض ہم تیار ہوگئے۔ وہ پندرہ دن تین سال پر محیط تھے۔ اس کے بعد ہم جہاں گئے اسی نوعیت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، فضائیہ کے تقریبا” ہر اہم ادارے میں کام کرنے کے مواقع ہمیں ملے۔ بقول ونگ کمانڈر مخدوم یہ ہماری خوش قسمتی تھی۔
کچھ احوال اس کا بھی بیان ہوجائے:
“پی اے ایف بیس کوہاٹ ( 1981& 1973)”
کوہاٹ بیس پر ہماری تقرری دو مرتبہ ہوئی۔ سخت موسم کے باوجود ہمیں وہ جگہ پسند تھی۔ تین چار دن کڑاکے کی گرمی کے بعد بارش ضرور ہوتی۔ بارش میں ہم باہر روڈ پر نکل جاتے۔ بھیگنا بہت اچھا لگتا۔ ایک بار بارش نے طوفان کی شکل اختیار کرلی۔ ہوا کی شدت کسی پتنگ کی طرح چکر دے رہی تھی۔ اچانک کسی نے ہمیں دیوار کی طرف دھکیل دیا۔ کئی لوگ بازو پھیلائے دیوار سے چپکے کھڑے تھے۔ ہم نے اس کے بعد اسلام آباد میں بھی اسی طرح طوفانی ہوا کےتھپیڑوں سے خود کو بچایا۔ (ویسے یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ دیوار گر بھی سکتی ہے)
دوسری بار کمیشنڈ ملنے کے بعد نومبر کے مہینے میں۔ افسر میس میں ہم تمام ٹرینی آفیسر چھ نومبر کی شام پہنچ گئے۔ سات نومبر سے ٹریننگ شروع تھی۔ سخت سردی کے باوجود ٹولیوں کی شکل میں ایک دوسرے کے کمروں میں ملنے ملانے کا سلسلہ شروع تھا۔ ہم چارپانچ لوگ جب دستک دے کر ایک کمرے میں داخل ہوئے تو بستر پر دراز تیز بلب کی روشنی میں جو مخلوق نظر آئی وہ دو کمبلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ گردن میں مفلر جس کے اوپر چمڑے کی جیکٹ کا براؤن کالر نظر آرہا تھا۔ سر سے کانوں تک چمڑے کی جیکٹ سے میچ کرتا کنٹوپ۔ ہمارے سلام کے جواب میں قرات کے ساتھ وعلیکم السلام کی آواز آئی اور وہ عجیب و غریب مخلوق اٹھ بیٹھی۔ ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے تعارف کروایا۔ جو دس منٹ سے کم نہ تھا وہ بھی صرف نام اور ڈگریاں۔ موصوف ایم ایس سی سائیکالوجی تھے۔ چونکہ سردی بہت تھی اس لیے کراچی سے چلتے وقت ییگم نے جو ہدایات دیں تھا اور سردی سے بچاؤ کی تدابیر بتائی تھیں ان پر جناب عمل پیرا تھے۔ لیکن ٹرینگ کے پہلے ماہ ہی میں ائرفورس کو اپنے تجربات سے محروم کرگئے۔
لیکن زیادہ فکر کی بات نہیں تھی ائرفورس کو “نقصان” سے بچانے کے لیے دوسرے ٹرینی سائیکالوجسٹ موجود تھے۔ آپ بھی کم “سائیکو” نہ تھے۔ ان سے جب ملاقات ہوئی تو پنجابی لہجے میں انگریزی بولتے ہوئے ٹراؤزر کا ایک پائنچہ اٹھا کر بتایا کہ یہاں متعدد پسٹل کی گولیاں لگ چکی ہیں، کئی منٹ تک ہم تفصیل سنتے رہے ۔ وہ جس بھی ملتے تعارف کے ساتھ پسٹل کی بُلٹ کے نشان ضرور دکھاتے۔۔۔ تفصیل کے ساتھ۔
ٹرینگ شروع ہوئے دوسرا دن ہی تھا چھٹی کے بعد میس میں لنچ کے لے ہم بھی پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سائیکالوجسٹ صاحب اپنے ساتھیوں کے مرکزِ نگاہ بنے پہلے سے براجمان ہیں۔ ایک لمحے کو تو ہم انہیں پہچان نہ پائے۔ سینے پر بہت سے چھوٹے بڑے تمغے جگمگا رہے تھے ساتھی ٹرینی آفیسرز بڑے اشتیاق سے انہیں تک رہے تھے اور حضرت کسی بریگیڈئیر کی طرح سینہ پھلائے ہنس ہنس کر جواب دے رہے تھے۔ لنچ ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ اتنے میں ایک سینئر آفیسر داخل ہوئے۔ ایک نظر ہی میں معاملہ بھانپ گئے۔ قریب آکر پوچھا ” Are you newcomers
آپ نے مسکرا کر جواب دیا ,Yes Sir
دوسرا سوال ذرا تیز لہجے میں۔۔
From where you got these medals
جواب میں موصوف مسکرا کر سیدھے ہاتھ سے میڈل تھپتپھاتے ہوئے بولے
Sir, from the shop, you can also buy.
سینئر آفیسر کی برداشت جواب دے چکی تھی۔ غصے سے بولے
Idiot go to your room
with double, remove it and report after lunch.
جو میڈل برسوں کی محنت کے بعد اہل فوجیوں کو ملتے ہیں ہمارے ٹرینی سائیکالوجسٹ وہ سب سینے پر سجا کر آگئے تھے۔
کوہاٹ میں ہماری دلچسپی کی وجہ وہاں کے اردو سے محبت کرنے والے ادب نواز لوگ تھے۔ تفصیل بعد کی کسی قسط میں، ان شاءاللہ۔
“کورنگی کریک بیس ( 1985-1974)”
کورنگی کا تفصیلی احوال گزشتہ اقساط میں ہم بیان کرچکے ہیں۔
“پی اے ایف اکیڈمی رسالپور، (88-1985)”
کورنگی کریک سے 1985 میں ہماری پوسٹنگ “پی اے ایف اکیڈمی (رسالپور) ہوگئی۔ یہاں امتحانات کا شعبہ ہمارے حوالے کیا گیا ساتھ ہی “Public Speaking” کی کلاسز۔
“وقت پر بھی اکیڈمی پہنچنے پر جواب طلبی”
یوں تو ہر ملازمت میں وقت پر آفس پہنچنے کی پابندی ہوتی ہے لیکن دفاعی اداروں میں دیر سے پہنچنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وقت پر آفس پہنچنے کے باوجود ایک صاحب کو “وارنگ لیٹر” مل گیا۔ یہ واقعہ بظاہر لطیفہ لگتا ہے لیکن اس میں موجود ایک واضح اصلاحی عنصر موجود ہے۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک جونیر آفیسر آفس وقت پر پہنچنے کی جلدی میں تیز تیز قدم اٹھاتے چلے جارہے تھے کہ ان کے قریب ادارے کے سربراہ کی کار آکر رکی۔ ڈرائیور نے باس کے حکم پر دروازہ کھول کر ان آفیسر کو اپنے قریب بٹھالیا۔ یہ بڑھے خوش۔ اکیڈمی پہنچ کر بڑے صاحب کا شکریہ ایک کڑک سلیوٹ کے ساتھ ادا کیا۔ اسٹاف روم میں آکر موصوف بڑے فخر سے ہم سب کو بتارہے تھے کہ آج جھنڈے والی گاڑی میں باس کے ساتھ آیا ہوں، ڈرائیور نے دروازہ کھولا۔ ابھی شاہی سواری کا نشہ اترا بھی نہ تھا کہ آفس کلرک نے ایک بند لفافہ لاکر پیش کیا۔ لفافے سے لیٹر نکال کر پڑھتے کے ساتھ ہی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ہم ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ لیٹر کیا تھا
“Love Letter”
تھا۔ دیر سے آنے پر وارننگ۔۔ یہ پریشان اور ہم سب بھی حیران کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ باس کے ساتھ پہنچے تھے اور باس ہمیشہ وقت پر تشریف لاتے تھے۔ نہ ایک منٹ زیادہ نہ کم۔ آپ گھڑی ملالیں۔ جلد ہی یہ خبر سب میں پھیل گئی کہ باس کے ساتھ آئے پھر بھی وارننگ۔
ٹی بریک میں اسٹاف آفیسر نے ان کے پاس آکر وضاحت کی کہ باس سخت ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “اگر میں اپنی گاڑی میں نہ بٹھاتا تو وہ آفیسر آفس دیر سے پہنچتا”۔ اس لیے باس کے حکم پر یہ “Love Letter” دیا گیا:
“بزم میں اپنی بلاتے ہیں بڑے پیار کے ساتھ
اور پھر ہم کو بٹھاتے بھی ہیں اغیار کے ساتھ”
“فیروز ناطق خسرو”(جاری ہے)
Leave a Reply