rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
میں سطوت آرا عرف گڑیا اپنے والدین کی چوتھی اور اخری اولادیعنی پیٹ گھروڑی تھی.پیٹ گھروڑی، آخری اولاد کو کہتے ہیں؛ اماں جب زیادہ ہی لاڈ میں آتی تو میرے دونوں گالوں کی چٹکیاں بھرتے ہوئے کہتی، میری پیٹ گھروڑی، ماں میرے لیے ہر رنگ کے اور ہر ڈیزائن کے خوب صورت فراک سیتی، ساتھ میں میچنگ جوتے اور پونیاں، پنیں تو جیسے لازم و ملزوم تھیں ہی، ماں کے اگر بس میں ہوتا تو وہ میرے یعنی سطوت آرا کے پاوں بھی زمین پہ نہ لگنے دیتی، پتا نہیں یہ ماییں اپنے بچوں اور خاص طور پر اپنی بیٹیوں سے اتنا پیار کیوں کرتی ہیں شاید انھیں خوف ہوتا ہے کہ پھر ساری عمر پیار کو ترسنے والی بیٹی ماں سے تو پیار کی دولت تو جھولیاں بھر بھر کے لے لے . ہم متوسط طبقے کے لوگ تھے ابا ایک سرکاری محکمے میں درجہ چہارم کے ملازم تھے اور تنخواہ اتنی ہی تھی کہ اگر سر ڈھانپ لیتے تو پاوں ننگے ہو جاتے اور اگر پاوں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا رشوت کا ایک دھیلہ بھی ان کے لیے حرام تھا، سلیقہ شعار ماں اس سر اور پاوں کی لڑائی میں بار بار زخمی ہوتی، مگر اف نہ کرتی، زندگی صبر و قناعت کی ردا اوڑھے اچھی خاصی گزر رہی تھی کہ، ایک دن ہمارے ہمسایوں کے گھر ایک اسٹیج کی اداکارہ تشریف لے آئیں، سفید دودھیا رنگت، کالی ستاروں والی ساڑھی اور دو انچ پٹی والے بلاوز نے مانو اہل محلہ کے حواس ہی چھین لیے، نک سک سے تیار، آدھی ڈھکی ہوی اور آدھی ننگی رقاصہ اگرچہ سٹیج پہ نہ تھی مگر اس کی تیاری، سجاوٹ اور بے باکی اتنی جان لیوا تھی کہ محلے کے سن رسیدہ بابوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بالوں کے دلوں پہ بھی اینویں ہی آرے چل چکے تھے، گھر کی بڑی بوڑھیاں بچی بالڑیوں کی آنکھوں پہ اپنے دوپٹے ڈال کر ایکٹریس
کی ہوشر با اداواں سے بچیوں کو بچانے کی کوشش ناکام میں مشغول یہ بھول گییں کہ بے حیائی دروازے توڑ کر بھی انسانی دل و دماغ میں داخل ہو جاتی ہے. اور ایسا ہی کچھ سطوت کے ساتھ بھی ہوا اس بد قسمت کے دل و دماغ میں اس ڈانسر کی چھب ایسے بیٹھی کہ وہ اپنے تہجد گزار باپ اورباحجاب ماں کا سکھایا ہوا درس بھول کے اس سٹیج ڈانسر کی راہ پہ لگ گءی، والدین اور بہن بھائیوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی سطوت آرا کے کان پر جوں تک نہ رینگی، اور وہ آزادی، تنہای، فیشن پرستی،مادہ پرستی، بے حیائی اور میرا جسم میری مرضی جیسے واہیات نعرے کی ایسے اسیر ہوی کہ اسے والدین کی نافرمانی کے ہی ایک سلسلے کی کڑی میں پہلے گھر چھوڑنا پڑا، پھر دوست احباب اور آخر کار یہ دنیا ہی چھوڑنی پڑ گءی، لوگ میرے مرنے کے بعد بھی مجھ پہ، میرے کردار پہ میرے والدین پہ لعن طعن بھیج رہے ہیں کاش میں اپنے پردے، اپنے حجاب میں اپنے محرم کے ساتھ رہتی تو ساری دنیا کے لیے نشانہ عبرت تو نہ بنتی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply