تحریر: طارق خان یوسفزئی
“غنی خان” جسے عام طور پر لوگ غنی خان بابا اور ادبی حلقوں میں لیونی فلسفی کے نام سے جانتے ہیں ،غنی خان بابا پشتو زبان کے ایک منفرد اور عظیم شاعر، فلسفی، مصور، اور مصنف تھے۔ وہ نہ صرف پشتون قوم کی روح کی ترجمانی کرتے ہیں بلکہ ان کی شاعری عالمی سطح پر بھی فکر و فلسفے کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام ذذذرکھتی ہے۔ ان کا کلام محبت، آزادی، انسانیت، اور مزاحمت جیسے موضوعات پر مبنی ہے۔ ان کی شاعری میں تصوف، حکمت، اور فن کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے، جو انہیں دیگر شاعروں سے ممتاز بناتا ہے۔غنی خان 1914 میں خیبر پختونخوا کے علاقے چارسدہ اتمانزئی میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور سیاسی رہنما خان عبدالغفار خان (باچا خان) کے بیٹے تھے۔ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے جہاں سیاست اور خدمتِ خلق کو اولین حیثیت حاصل تھی، ان کی شخصیت میں بھی ایک باغیانہ انداز پیدا ہوا۔ وہ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے ہندوستان اور برطانیہ گئے، جہاں انہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن ان کا اصل شوق ادب، فلسفہ، اور فنونِ لطیفہ تھا، جس کی جھلک ان کی شاعری اور مصوری میں نمایاں نظر آتی ہے۔غنی خان کی شاعری کو محض روایتی شاعری کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ان کے اشعار میں ایک گہری فکری سوچ چھپی ہوتی ہے۔ وہ ایک آزاد روح کے مالک تھے اور ہر قسم کی تنگ نظری اور تعصب کے خلاف تھے۔ ان کا کلام محبت، حسن، فطرت اور انسان دوستی کی خوشبو سے مہکتا ہے۔غنی خان پشتو زبان کے ایک منفرد اور عظیم فلسفی شاعر تھے۔ ان کی شاعری صرف الفاظ کا خوبصورت امتزاج نہیں بلکہ ایک گہری فکری سوچ کی عکاسی ہے۔ وہ محبت، آزادی، حسن، فطرت، انسان دوستی اور خودی کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے کلام میں پشتون قوم کے لیے ایک خاص پیغام ہے.تعلیم، شعور اور خودشناسی کی اہمیت۔غنی خان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ بھی نمایاں ہے، جہاں وہ دنیا کی حقیقتوں پر گہرا طنز کرتے ہیں اور انسان کو اس کے اصل مقام کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ تقلید اور جمود کے سخت خلاف تھے اور ہمیشہ آزاد خیالی اور فکری بیداری کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں عشق کی باتیں ہیں، لیکن یہ عشق محض مادی نہیں بلکہ فکری اور روحانی بھی ہے۔وہ جاگیرداروں، شدت پسندوں اور استحصالی عناصر کے سخت ناقد تھے۔ ان کے نزدیک اصل حسن وہ آزادی ہے جو انسان کو سوچنے اور جینے کا حق دے۔ ان کی شاعری میں فطرت کے حسین مناظر بھی بھرپور انداز میں پیش کیے گئے ہیں، جو ان کی جمالیاتی حس کی عکاسی کرتے ہیں۔ان کی مشہور کتاب “دیوان غنی ” پشتو ادب میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، جو ان کے فلسفے اور فکری وسعت کی بہترین مثال ہے۔غنی خان کا کلام صرف پشتونوں کے لیے نہیں بلکہ ہر اس انسان کے لیے ہے جو سچ، حسن اور آزادی کی تلاش میں ہے۔ وہ نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک اور ایک لازوال فلسفہ بھی تھے۔ان کی شاعری میں پشتون قوم کے لیے ایک خاص پیغام ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ پشتون تعلیم، شعور اور خودی کی طاقت سے اپنی تقدیر بدلیں۔ وہ جاگیرداروں، مذہبی شدت پسندوں، اور استحصالی قوتوں کے شدید ناقد تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ان عناصر کو بے نقاب کیا جو سماج کو پسماندہ رکھنے کے ذمہ دار تھے۔غنی خان کی مشہور تصانیف میں “دی پٹھان”، “لٹون” اور “دہ پنجرے چغار” شامل ہیں۔ “د غنی کلیات” ان کی سب سے مشہور کتابوں میں سے ایک ہے، جس میں ان کی فلسفیانہ سوچ اور شاعری کا بہترین اظہار ملتا ہے۔ ان کی نثر بھی بے حد متاثر کن ہے، جس میں طنز، مزاح اور حقیقت پسندی نمایاں ہیں۔غنی خان نہ صرف ایک ممتاز شاعر، مصور اور فلسفی تھے بلکہ ان کی سیاسی زندگی بھی دلچسپ اور منفرد رہی۔ وہ خان عبدالغفار خان (باچا خان بابا) کے بیٹے تھے اور خدائی خدمتگار تحریک سے گہرا تعلق رکھتے تھےغنی خان کو سیاست وراثت میں ملی، کیونکہ ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد ہندوستان کی آزادی اور پشتونوں کے حقوق کے لیے سرگرم تھے۔ تاہم، غنی خان خود کو ایک روایتی سیاستدان کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، بلکہ وہ ایک آزاد خیال شخص تھے جو سیاست کی سختیوں سے جلد اکتا جاتے تھے۔غنی خان نے ابتدا میں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شرکت کی اور ہندوستانی نیشنل کانگریس کے قریب رہے۔ ان کے والد اور بھائی اجمل خاں بھی کانگریس کے ساتھ وابستہ تھے، اور وہ برطانوی راج کے خلاف عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھتے تھے۔برطانوی حکومت نے غنی خان کو کئی بار قید کیا۔ آزادی کے بعد بھی، جب پاکستان میں خدائی خدمتگار تحریک کو سختیوں کا سامنا کرنا پڑا، تو انہیں 1948 میں گرفتار کیا گیا اور کئی سال جیل میں رہے۔ یہ دور ان کی شاعری اور فلسفیانہ خیالات میں مزید گہرائی کا سبب بنا۔جیل سے رہائی کے بعد، غنی خان نے عملی سیاست سے خود کو علیحدہ کر لیا۔ وہ سیاست کو منافقت اور ذاتی مفادات کا کھیل سمجھتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت شاعری، فلسفہ، اور مصوری میں گزرا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سیاستدانوں کی دوغلی پالیسیوں پر شدید تنقید بھی کی۔غنی خان کی سیاست سے بے زاری کے باوجود، ان کے خیالات پشتون قوم پرستی، آزادی، اور ترقی پسندی پر مبنی تھے۔ وہ جمہوریت کے حامی تھے لیکن سیاست میں جھوٹ اور فریب کو ناپسند کرتے تھے۔غنی خان غنی خان کو فطرت سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کے اشعار میں پہاڑ، دریا، سبزہ، اور آسمان کے خوبصورت نظارے جا بجا نظر آتے ہیں۔ وہ حسن کے متوالے تھے اور ہر خوبصورت شے سے متاثر ہوتے تھے، چاہے وہ فطرت ہو، عورت ہو، یا انسان کی اندرونی خوبصورتی۔غنی خان نے اپنی زندگی کے آخری ایام چارسدہ میں گزارے، جہاں وہ خاموشی سے اپنی فکری دنیا میں مصروف رہے۔ 15 مارچ 1996 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور پشتو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ سمجھی جاتی ہے۔غنی خان محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک تحریک، اور ایک فلسفہ ہیں۔ ان کی شاعری ہر اس شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو آزادی، محبت، اور انسان دوستی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ پشتو ادب کا ایک درخشندہ ستارہ تھے، جو ہمیشہ اپنی روشنی سے دلوں کو منور کرتا رہے گا۔
Leave a Reply