Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پشور سے برمنگھم اور برمنگھم سے برلن

Articles , Snippets , / Thursday, September 25th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
پلوشے پہاڑی علاقے میں مستیاں اور خر مستیاں کرتی کرتی کب بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی کی حدود میں داخل ہو گءی،اس کے والدین بچپن میں ہی ایک روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار گیے تھے، دو سالہ پلوشے دادی کے پاس تھی اور پھر پلوشے دادی ہی کے پاس رہ گءی، دادی نے بھی دل و جان سے اپنی محبت اور خلوص پلوشے پہ وارا، بن ماں باپ کی بچی کو دادا، دادی کے ساتھ ساتھ ماں اور باپ کا پیار بھی دیا، تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ زندگی بتانے کے ڈھنگ بھی بتاے، اگر پلوشے کے ساتھ عید شبراتیں مناییں، تو رمضان کے روزے،با ترجمہ قرآن پاک، نماز پنجگانہ، نماز شکرانہ، نماز حاجت، بیماروں کی بیمار پرسی اور حاجت مندوں کی داد رسی، غرض حقوق اللہ سے حقوق العباد تک دادی نے ہر ہر سبق اپنی یتیم مسکین پوتی کو دان کر دیا تھا، تاکہ پلوشے کو زندگی میں کسی بھی مقام پہ یہ محسوس نہ ہو پاے کہ وہ تو بن ماں باپ کی بچی تھی اور کوی اس کا والی وارث ہی نہ تھا، دادی ہر قدم پہ اپنی پوتی کے لیے مشعل راہ بنی رہی، دادی کی بھی خوش بختی اور پوتی کی بھی خوش نصیبی کہ دونوں کو ایک دوسرے کا اتنا پیارا ساتھ نصیب رہا اور پلوشے کی شادی اپنے تایا زاد ہمایوں خان سے ہوی اور وہ رخصت ہو کے برلن آ گءی، نیا دیس، نیے قانون پہلے دو سال تک تو پلوشے کی آنکھیں پل پل اپنے گاوں اور دادی کی یاد میں بھیگ جاتی تھیں، نجانے اپنا دیس، اپنا علاقہ، اپنے موسم اور اپنے ملک کی ہواییں اتنی پیاری کیوں ہوتی ہیں کہ ان کی یاد, دل کی دھڑکنوں میں دھڑکن کی طرح ہرسانس کے ساتھ دھک دھک کرتی رہتی ہے. تو پلوشے کے دل میں دادی، دادی کی باتیں، دادی کے سکھاے ہوے اطوار اور اپنے وطن کے موسم سانسوں کی روانی کی طرح ہی چلتے تھے. اس عید پہ دادی نے اپنے ایک دور پار کے رشتہ دار کے ہاتھوں پلوشے کو سنہری پشواز، تلے والے کھسے کے ساتھ، بوندی کے لڈو، جو کہ پلوشے کو بہت زیادہ پسند تھے اور خشک شیرے والی خوبانیاں تو پلوشے کی جان تھیں، رات کو دادی سے دیس دیس کی کہانیاں سنتے ہوے خوبانیوں کی عیاشی تو لازم و ملزوم تھی، خیر دادی نے اپنے اس رشتہ دار کو جو کہ برمنگھم کے ایک بڑے ہسپتال میں بڑا ڈاکٹر تھا کے حوالے اپنی پوتی پلوشے کی اشیاء کا پارسل ایڈریس لکھ کر کر دیا، اب مشہور اور مصروف ڈاکٹر صاحب نے کسی عام سی کورییر سے پلوشے کو وہ پارسل پوسٹ کر کے اپنی جان تو چھڑوا لی مگر جب ایک ماہ اور دس دن کے بعد وہ پارسل برمنگھم سے برلن اور برلن پہ مطلوبہ ایڈریس کی عدم دستیابی کے بعد دوبارہ برمنگھم پہنچ گیا تو مت پوچھیے گا کہ اتنی محبت سے تحفہ بھیجنے والی پہ کیا بیتی اور تحفے کا انتظار کر کے ناامید اور مایوس ہونے والی پلوشے پہ کیا بیتی؟
یہ دوریاں اور دوریوں کے عذاب بڑے ٹیڑھی کھیر ہوتے ہیں، اللہ ہمیں ایسی تمام آزمائشوں سے بچا کے رکھے. آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International