Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پلاسٹک کےنقصانات

Articles , Snippets , / Thursday, April 10th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔پلاسٹک بظاہر انسانوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے،لیکن اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔پلاسٹک سے بنی ہوئی چیزیں بے دھڑک استعمال کی جا رہی ہیں اور اس خطرے کا ادراک نہیں کہ یہ کتنی نقصان دہ ہیں۔بازار میں خریداری کی جائے تو دکاندار اشیاء کو پلاسٹک کے بیگ میں ڈال کر پکڑا دیتا ہے۔پلاسٹک کا استعمال ہماری زندگی میں بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔پانی کی بوتلیں،موبائل،جوتے،گاڑیوں کے کچھ پارٹس اور دیگر کئی چیزیں پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں۔مکانات کی چھتوں کو ٹپکنے سےمحفوظ کرنے کے لیےچھتوں کے اوپر پلاسٹک شیٹس بچھائی جاتی ہیں۔چائے یا دودھ بھی اگر ہوٹل یا بازار سے خریدا جائےتو وہ بھی پلاسٹک بیگ میں لایا جاتا ہے۔پلاسٹک کا استعمال اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ محسوس ہوتاہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارناناممکن ہوگیاہے۔خوراک کی پیکنگ کی جاتی ہے تو پلاسٹک ڈبوں میں اور ادویات کو بھی پلاسٹک کے ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے پلاسٹک کی تہوں میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔پلاسٹک کا بڑھتا استعمال ماحول کے لیے بہت سے خطرات پیدا کر رہا ہے۔پلاسٹک انسانی زندگیوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔اس میں شامل کیمیکلز بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں۔پلاسٹک میں شامل کیمیکلز جیسے کہ بی پی اے اور فیتھیلیٹس،انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔پلاسٹک ذرات ہوا،خوراک یا پانی کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوکرمختلف قسم کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ان ذرات کی وجہ سےدل کی بیماریاں،کینسراوردیگر امراض بھی انسانوں کو لاحق ہو جاتے ہیں۔ثابت ہوتا ہے کہ پلاسٹک انسان زندگی کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔پلاسٹک صرف انسانوں کے لیے خطرناک نہیں بلکہ جانوروں اور آبی حیات کے لیے بھی خطرناک ہے۔
دنیا میں پلاسٹک کا استعمال روکنے کے لیےمنصوبے بنائے جا رہے ہیں۔پلاسٹک کے استعمال کو روکنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔پلاسٹک کااستعمال اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ دیگر ذرائع اس کے مقابلے میں مہنگے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کافی یا چائے پی جائے تو پلاسٹک کپ میں پی جاتی ہے،کیونکہ بعض اوقات استعمال شدہ کپ گندےہوتےہیں یاجراثیم سےمتاثریوتےہیں،ان کپوں کی صفائی صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی۔پلاسٹک کپ کم قیمت ہوتا ہے اور اس کو پھینک بھی دیا جائے تو کم نقصان ہوتا ہے۔اگر چائے یا کافی کسی دوسرے آئٹم سےبنےکپ کے ذریعےپیش کی جائے توان کپوں کو پھینکنا بہت ہی مشکل ہےکیونکہ وہ زیادہ لاگت سےبنائےجاتےہیں۔پلاسٹک کااستعمال ایک اور وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ پلاسٹک سی بنی اشیاء آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں۔آبی زندگیوں کے لیے بھی پلاسٹک خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔پلاسٹک سے بنی اشیاء نہروں، دریاؤں یا سمندروں میں پھینکی جاتی ہیں تو مچھلیاں یا دیگر آبی جاندار ان پلاسٹک کی اشیاء کوخوراک سمجھ کر نگل لیتےہیں اور یہ اشیاء نہ تو جسم میں گلتی ہیں اور نہ ہضم ہوتی ہیں اس لیے ان کی موت ہو جاتی ہے۔مچھلیاں وغیرہ اس لیے بھی پلاسٹک سے بنی اشیاء کو نگل لیتی ہیں کیونکہ خوراک اور ان کی بو ایک ہی طرح کی ہوتی ہے۔انسانوں کے علاوہ زمین پر کئی جانور پلاسٹک کی وجہ سے موت کی منہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ بھی پلاسٹک سے بنی اشیاء کو خوراک سمجھ کر کھا لیتے ہیں۔پلاسٹک اگر سینکڑوں سال بھی پڑا رہے تو یہ نہ گلتا ہے اور نہ ختم ہوتا ہے۔پوری دنیا میں پلاسٹک کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔پانی کے استعمال کے لیے بنائے جانے والے پائپ بھی پلاسٹک سے بنائے جا رہے ہیں اور دیگر سامان بھی پلاسٹک کا مرہون منت ہو چکا ہے۔فیکٹریوں میں پلاسٹک سے اشیاء بنائی جا رہی ہوتی ہیں تو اس دوران آلودگی پھیلتی ہےاور وہ آلودگی ماحول دشمن ہوتی ہے۔پلاسٹک کو زمین میں دبا بھی دیا جائےتو یہ ختم نہیں ہوتا اور نہ اس کوڈی کمپوز کیا جاسکتا ہے۔ٹنوں کے حساب سےپوری دنیا میں پلاسٹک کچرہ پیدا ہو رہا ہے۔2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں روزانہ 400 ٹن پلاسٹک کا کچرہ جمع ہوتا ہے۔اس کچرے کو نہ تو ڈی کمپوز کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی اور طریقے سے ضائع کیا جا سکتا ہے۔پلاسٹک کچرے کو دبا بھی دیا جائےتو پھر بھی نقصان دہ ہے،کیونکہ اس طرح مٹی کے ساتھ زیرزمین پانی بھی آلودہ ہو جائے گا۔سیوریج کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے،کیونکہ پلاسٹک کے تھیلے گلیوں میں پھینک دیے جاتے ہیں اور وہ گٹرلائنز میں گر کر لائنز کو بند کر دیتے ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی سے بچنے کے لیےاس کے خلاف جنگ لڑنی ہوگی۔پلاسٹک کااستعمال ہمیں اپنی زندگیوں سے نکالنا ہوگا۔پلاسٹک سے بنی اشیاء اگر فوری طور پر ضائع نہیں کی جا سکتیں تو آہستہ آہستہ پلاسٹک کو زندگی سے نکالا جا سکتا ہے۔اگر یہ ری سائیکل آسانی سے ہو سکے تو پھر بھی کچھ نہ کچھ حل نکل سکتا ہے،لیکن ریسائیکلنگ کے بھی اپنے نقصانات ہیں۔ماہرین کے مطابق اگر پلاسٹک کا استعمال بڑھتا رہا تو عالمی سطح پر2040 تک خارج ہونے والی 19فی صد زہریلی گیسوں کا اخراج پلاسٹک کی وجہ سے ہوگا۔تصور کیا جائےزہریلی گیسیں زندگیوں کے لیے کتنی خطرناک ہوں گی؟پوری دنیا میں 400 ملین ٹن پلاسٹک کچرہ روزانہ کے حساب سے پیدا ہو رہا ہے۔عالمی طور پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ پلاسٹک سےجان چھڑائی جائے،لیکن اس کے لیے عرصہ درکار ہوگا۔عوامی سطح پر اگاہی دی جائے تاکہ پلاسٹک کو دشمن کے طور پر سمجھا جا سکے۔اس بات کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ پلاسٹک سے آسانی سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔صرف شاپر بیگ پلاسٹک کے نہیں ہوتے بلکہ دیگر کئی اشیاء بھی پلاسٹک سے بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ٹوتھ برش بھی پلاسٹک سے بنا ہوتا ہےاور کپڑے لٹکانے کے لیے ہینگر بھی پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں۔جوتے بھی زیادہ تر پلاسٹک کے استعمال کیےجاتےہیں،کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق چمڑے سے اربوں انسانوں کے لیے جوتے نہیں بنائےجا سکتے۔اسی طرح کپڑے یا بہت سی دیگر ضروری اشیاء بھی پلاسٹک کے علاوہ بنانا مشکل ہے۔اس کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ پلاسٹک سے جان چھڑائی جا سکے۔ہو سکتا ہے کچھ سالوں کے بعد کوئی ایسا ذریعہ انسانوں کو میسر ہو جائے جو پلاسٹک سے زیادہ مضبوط اور بہتر ہو نیز انسان دوست بھی ہو۔بہرحال پلاسٹک کے نقصانات بہت ہیں،لیکن فائدے بھی بے شمار ہیں۔اس لیے اس کو اس حد تک استعمال کیا جائے جو ضروری ہو۔پلاسٹک کاغیر ضروری استعمال ترک کرنا ہوگا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International