Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پنجابی غزل

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, September 11th, 2025

rki.news

ساہ جد سجنا رُکنا ایں
جند ۔۔نمانی۔۔ مُکنا ۔۔ایں

اک دن ساہ دا پنچھی وی
جثے ۔۔وچوں اُڈنا۔۔۔۔۔ ایں

رل مل ہجر وچھوڑیاں نیں
دل۔ دا۔۔۔ پنجرا۔۔۔ ٹُکنا ۔۔ایں

کیہ ہویا اے دس مینوں
کیہڑے ۔ڈر توں لُکنا ایں

مان۔ بڑا سی سجناں ۔دا
ساجد ہن کیوں سُکنا ایں

پروفیسر ڈاکٹر اخلاق حیدر ابادی

نواز ساجد نواز

کی غزل کا تجزیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس غزل میں بنیادی تصور “سانس اور زندگی” کے تسلسل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شاعر نے محبت کے کرب کو “ساہ” اور “جند” کے استعاروں سے بیان کیا ہے۔ محبوب کی جدائی کو ایسا دکھایا ہے جیسے سانس رکنے لگے اور زندگی بے جان ہو جائے۔ یہاں محبوب کے بغیر جینے کی کیفیت کو فنا کے قریب تر محسوس کرایا گیا ہے، جو کہ پنجابی غزل کی روایتی مگر دل کو چھو لینے والی کیفیت ہے۔ شاعر نے دکھ کو وجودی سطح پر محسوس کیا ہے اور قاری کو بھی اس درد کا حصہ بنا دیا ہے۔

غزل کا دوسرا پہلو وقت اور فنا کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ “اک دن ساہ دا پنچھی وی جثے وچوں اڈنا ایں” یعنی یہ زندگی ایک عارضی قید ہے اور آخرکار ہر سانس کا پنچھی اس جسم کے پنجرے کو چھوڑ کر اُڑ جائے گا۔ یہ مصرعہ نہ صرف جدائی کے کرب کو بیان کرتا ہے بلکہ موت اور فنا کے فلسفے کو بھی چھوتا ہے۔ اس میں محبوب کی جدائی اور زندگی کی ناپائیداری ایک دوسرے سے جڑ جاتی ہے، جو شاعری کو اور زیادہ کربناک اور گہرا بنا دیتی ہے۔

تیسرے حصے میں شاعر نے ہجر اور وچھوڑے کو “دل دے پنجرا” کے ٹوٹنے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایک نہایت دلکش اور مؤثر علامت ہے، کیونکہ پنجرے کا ٹوٹنا نہ صرف قید سے آزادی کی علامت ہے بلکہ اندرونی بکھراؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا بھی پتہ دیتا ہے۔ شاعر کے دل کا پنجرہ جب ٹوٹتا ہے تو اس میں قید جذبات اور یادیں بکھر کر وجود کو مزید زخمی کر دیتی ہیں۔ یہ منظر قاری کے سامنے ایک مکمل جذباتی تصویری کیفیت پیدا کرتا ہے جو پنجابی شاعری کی خوبصورتی ہے۔

چوتھے حصے میں شاعر محبوب کو مخاطب کرکے سوال کرتا ہے کہ “کیہ ہویا اے دس مینوں، کیہڑے ڈر توں لُکنا ایں”۔ یہ سوال نہ صرف شکایت ہے بلکہ محبوب کی بے رخی پر حیرت بھی۔ شاعر کو محسوس ہوتا ہے کہ محبوب کی خاموشی اور اجتناب کسی انجانے خوف یا جھجک کا نتیجہ ہے۔ یہ سوال جدائی کے کرب کو اور گہرا کرتا ہے اور قاری کو بھی تجسس میں ڈال دیتا ہے کہ آخر محبوب کے دل میں کون سا خوف چھپا ہے۔

اسلوب
نواز ساجد نواز کی اس غزل کا اسلوب سادہ، دل نشین اور جذباتی ہے۔ شاعر نے مشکل الفاظ سے اجتناب کیا ہے اور پنجابی کے روزمرہ الفاظ کو انتہائی سلیقے سے برتا ہے۔ تشبیہ اور استعارے کے ذریعے جدائی اور ہجر کی کیفیات کو بامعنی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ “ساہ”، “جند”، “پنچھی”، “دل دا پنجرا” جیسی علامتیں قاری کے ذہن میں فوری تصویریں ابھارتی ہیں اور غزل کو ایک فطری روانی عطا کرتی ہیں۔ یہی سادہ مگر گہری زبان پنجابی غزل کا اصل حسن ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International