عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ کے روز خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں پولیو کا ایک نیا کیس رپورٹ کیا گیا ، چونکہ یہ سیمپلز پچھلے سال ہی لے لئے گئے تھے ، اِس لئے اس کیس کو سالِ گزشتہ 2024 کے کیسز میں ہی شمار کیا گیا ہے ، اور یوں پاکستان میں سالِ گزشتہ میں متاثرہ بچوں کی تعداد 69 ہوگئی ہے ۔ قومی ادارہ صحت (NIH) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے ، پاکستان اور افغانستان اب دنیا کے دو آخری ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس اپنا وجود ابھی تک برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے اس ہفتے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان سے سال 2024 میں پولیو کے 25 کیسز رپورٹ کیے گئے ، اور پاکستان میں اس مفلوج کر دینے والی بیماری کے اب تک 69 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں ، جبکہ گزشتہ سال جمع کیے گئے متعدد سیمپلز کی رپورٹس ابھی موصول ہونا باقی ہیں ۔ تاہم پاکستان پولیو پروگرام کے ایک سینئر اہلکار نے اس رپورٹ کے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان حقائق کے اشتراک کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، اور پاکستان کا رپورٹنگ سسٹم افغانستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں کئی کیسز رپورٹ نہ ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں ۔
ہمارے علم میں ہے کہ یہ بیماری جو ایک وائرس کی وجہ سے پھیلتی ہے ، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتی ہے اور پھر اس وائرس کے متاثرہ افراد عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وائرس کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں کے باوجود چند وجوہات پاکستان میں اس کی روک تھام میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں ، جن میں بعض علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل اور ویکسین کے حوالے سے غلط معلومات کی وجہ سے قطرے پلانے میں ہچکچاہٹ جیسی رکاوٹیں بھی شامل ہیں ۔ پاکستان نے کچھ سال قبل ملک سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کا اعلان کر کے یہ نوید سنائی تھی کہ پاکستان اب پولیو سے محفوظ ممالک میں شامل ہو چکا ہے ، مگر پچھلے دو سالوں میں اچانک پولیو وائرس کے شکار مریضوں کے منظر عام پر آنے کے بعد اب پاکستان میں WPV1 وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ سے متعلق تشویش پائی جا رہی ہے ۔ جنوری 2024 سے اب تک 69 کیسز رپورٹ ہونے پر عالمی سطح پر اس حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں ، کہ آخر ایک بھرپور مہم چلانے کے باوجود یہ وائرس اپنا وجود قائم رکھنے میں کیوں کر کامیاب ہے ۔ اب تک جو کیسز سامنے آ چکے ہیں ان میں سے 27 بلوچستان ، 21 خیبر پختونخوا ، 19 سندھ ، اور ایک ایک کیس پنجاب اور اسلام آباد سے رپورٹ ہوا ہے ۔ یہ رپورٹ اس طرف بھی توجہ مبذول کروا رہی ہے کہ اس وائرس کا دائرہ کسی ایک علاقے تک نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے ۔
پولیو ایک مفلوج کر دینے والی بیماری ہے اور یہ وائرس ایک بار جس کو اپنا شکار بنا لے پھر اس کا کوئی علاج تاحال ممکن نہیں ہے ۔ اس سے بچاؤ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے سے بچا جائےجس کا واحد حل پولیو ویکسین ہے ، اس لئے پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کے لیے پولیو ویکسین کی متعدد خوراکیں اور معمول کے ویکسینیشن شیڈول کی تکمیل ہی اس خطرناک بیماری کے خلاف اعلیٰ مدافعت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ پاکستان پولیو پروگرام سال میں متعدد ویکسینیشن مہمات کا انعقاد کرتا رہتا ہے ، پولیو ویکسین کو بچوں کے لئے گھروں کی دہلیز تک پہنچاتا ہے ، جبکہ ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن بچوں کی 12 بیماریوں کے خلاف مفت ویکسین فراہم کرتا ہے ۔ پچھلے سال ایک سب نیشنل پولیو ویکسینیشن مہم جو کہ 16 سے 22 دسمبر تک پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، آزاد جموں و کشمیر ، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں چلائی گئی تھی ، اس میں 4 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچوں کو ویکسین دی گئی۔
ہر سال کی طرح اس سال 2025 کی پہلی پولیو ویکسینیشن مہم 3 فروری سے 9 فروری 2025 تک ملک بھر میں منعقد کی جائے گی ۔ تمام بچوں کو اس خطرناک پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ والدین گھر آنے والی ان ویکسینیشن ٹیموں کا خیر مقدم کریں ، ان سے بھرپور تعاون کریں اور اپنے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلائیں ، تاکہ ان کے بچے اس بیماری سے محفوظ رہ سکیں ۔ حکومت کی تمام کوششوں کو ثمر آور ہونے کے لئے عوام کا بھرپور تعاؤن درکار ہے کہ وہ حکومت کی ان کوششوں کو سراہتے ہوئے مکمل تعاؤن کریں اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر اس خطرناک بیماری کو شکست دینے کی کوششوں میں عملی کردار ادا کریں ۔
Leave a Reply