rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
ھارت کےتقریباہر پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔تمام پڑوسی ممالک اس کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔پاکستان اور چین نےانڈیا کے ساتھ کئی جنگیں بھی لڑی ہیں۔پاکستان کو انڈیا ہر وقت نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔اس وقت بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالات بگڑے ہوئے ہیں۔پاکستان کا پانی بھی انڈیا بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سندھ طاس معاہدے کے ذریعے جن دریاؤں پر پاکستان کا حق سمجھاگیا،ان کا پانی انڈیا بند کرنا چاہتا ہے۔سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ہوا،لیکن اب انڈیااس معاہدے کو تسلیم کرنے سےانکاری ہو چکا ہے۔انڈیا صرف پاکستان کے ساتھ نہیں لڑرہا،بلکہ دیگر پڑوسی ریاستوں کے ساتھ بھی جھگڑ رہا ہے۔اتوار کے روزمیانمارپرڈرونز میزائل کے ذریعے حملہ کر کےبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔یو ایل ایف اے آئی نےایک بیان جاری کیا ہےکہ میانمار میں سرحد کے قریب ایک ڈرونز حملوں میں ان کا ایک اعلی کمانڈرسمیت دواعلی شخصیات کو مارا گیا، جبکہ 19 افراد زخمی ہوئے ہیں۔بھارت کا یہ حملہ انتہائی افسوسناک ہے اورقابل مذمت بھی ہے۔ایک آزاد ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئےبمباری کی گئی ہے۔میانماربھارت کی نسبت کمزور ریاست ہے۔یہ ریاست چار جنوری 1948 میں برطانیہ سےآزاد ہوئی۔بھارت یہ جواز دے سکتا ہے کہ سرحد کے دوسری طرف انڈیا کے دشمن تھےاور ان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا میانمار یا کسی دوسری ریاست کو اجازت مل سکتی ہے کہ وہ انڈیا کے اندر چھپے ہوئے اپنے دشمنوں کو نشانہ بنائیں؟اس کا جواب ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کہ انڈیا کبھی ایسی اجازت نہیں دے گا۔بین الاقوامی قوانین بھی یہی ہیں کہ کسی آزاد ریاست پر حملہ نہ کیا جائے۔انڈیا نے150 اسرائیلی خود ساختہ ڈرونزکے ذریعےحملہ کیا ہے۔
انڈیا اپنے آپ کو سپر پاور کے طور پر متعارف کروانا چاہتا ہے۔امریکہ جس طرح عالمی طور پراپنا کردار ادا کر رہا ہے اسی طرح انڈیا بھی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔انڈیا اور امریکہ میں بہت فرق ہے۔امریکہ جتنی قوت حاصل کرنا انڈیا کے لیے ناممکن ہےاور نہ اس کی پڑوسی ریاستی اتنی کمزور ہیں کہ وہ انڈیا کو جواب نہ دے سکیں۔کچھ ماہ پہلے پاکستان کے ساتھ بھی انڈیا کی جھڑپ ہو چکی ہےاور وہ جھڑپ انڈیا کے لیے انتہائی سبق آموز تھی۔انڈیا نے اس جھڑپ کو”آپریشن سیندور” کا نام دیا تھا۔انڈیا نےمیانمار پر اس وقت حملہ کیا ہے جب “آپریشن سنیدور”پر تنقید کی جا رہی ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ میانمار انڈیا کو جواب دے سکتا ہے۔پڑوسی ریاستیں میانمار کا ساتھ دے کرانڈیا کو جواب دینے کی کوشش کریں۔پڑوسی ریاستوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری بھی انڈیا سےسےجواب مانگےاورکم ازکم ہرجانہ وصول کر کے میانمار کو دےدیاجائے۔انڈیا کی بڑھتی جارحیت جہاں پڑوسیوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہے،وہاں بین الاقوامی طور پر بھی بد امنی کو فروغ دے رہی ہے۔انڈیا پاکستان سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کروا چکا ہے۔پاکستان میں اس وقت بھی کلبھوشن یادیو نامی دہشت گرد گرفتار ہے۔کینیڈا میں بھی بھارتی ایجنسی را نے کچھ عرصہ قبل ایک سکھ رہنما کوقتل کر دیا تھا،جس کا عالمی طور پر بہت چرچاہوا تھا۔اس قسم کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ انڈیا بین الاقوامی طور پربدامنی پھیلا رہا ہے۔براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ بد امنی انڈیا کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہے۔اگر انڈیا کو نہ روکا گیا تو بہت بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے،جوپوری دنیا کو متاثر کر دے گی۔
انڈیا صرف میانمار کو نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ دوسرے ممالک کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔بنگلہ دیش جو کہ پاکستان کا حصہ تھا،1971 میں وہاں بد امنی پیدا کر کےپاکستان سےعلیحدہ کرایاگیا۔کچھ عرصہ قبل تک بنگلہ دیش میں اس کی مداخلت جاری تھی،لیکن جب حسینہ واجد کے خلاف عوامی احتجاج عروج پر پہنچا تووہ انڈیا بھاگ گئی۔ہو سکتا ہے اب بھی انڈیا بنگلہ دیش میں مداخلت کر رہا ہو۔بنگلہ دیش کے علاوہ دوسری ریاستیں بھی اس کی دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔انڈیا کے اندر بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں اور ان کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔دیگر اقلیتوں کے علاوہ نچلی ذات کے ہندو بھی انڈیا کےاعلی ذات کے ہندوؤں سے محفوظ نہیں۔عبادت گاہیں مسمار کی جا رہی ہیں اور گھروں کوتباہ کیا جا رہا ہے۔انڈیا اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔انڈیا میں رہنے والی اقلیتیں ہمیشہ خوف کی کیفیت میں رہتی ہیں۔اقلیتیں کاروبار بھی ڈر ڈر کر رہی ہیں اور ملازمتیں بھی خوف کی کیفیت میں کی جاتی ہیں۔
میانمار پر حملہ ہو یا پاکستان پر،قابل مذمت ہے۔ہر ایک ریاست کا حق ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو فوقیت دے۔انڈین حملے روکنے ہوں گےتاکہ بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد ہو سکے۔انڈیا دہشت گردی کا بہانہ بنا کر کسی بھی ملک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔انڈین دہشت گردی بہت بڑھ رہی ہےاور اس کوروکنا ہوگا۔اگر انڈیا کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو مستقبل میں اس سے زیادہ خطرات پیدا ہوں گے۔اقوام متحدہ بھی نوٹس لے۔بین الاقوامی دباؤ انڈیا کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو پامال نہ کرے۔بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتےہوئے تمام اقلیتوں کو بھی آئینی حقوق دیے جائیں۔کسی آزاد ریاست پر حملہ ناقابل برداشت ہے۔بھارتی جارحیت خطے کے ممالک مل کر ہی روک سکتے ہیں۔
Leave a Reply