پھول تنہا کہاں پہ اُگتے ہیں
گُل کو چھوٸیں تو خار چُبھتے ہیں
حقیقت تو یہی ہے کہ ہر پھول کے ساتھ کانٹا بھی ضرور ہوتا ہےجو پھول کو چھونے یا توڑنے کی صورت میں ہاتھ میں چُبھ جاتا ہے اور تکلیف دیتا ہے۔
دراصل پھول اور کانٹا ایکدوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور کانٹا دراصل پھول کے ساتھ ساتھ ہی پروان چڑھتا ہے۔
انسانی زندگی کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔خوشی اور مسرّت کے پھول تبھی کھلتے ہیں جب کانٹوں سے بچنا یا نباہ کرنا آتا ہو۔
رہِ زیست میں ہم جب بھی پھول جیسی کسی خوب صورت چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کانٹے ہمیں مشکلات کی صورت میں ملتے ہیں۔کانٹوں سے اُلجھے بغیر یا انہیں راہ سے ہٹائے بغیر ہم منزل مقصود نہیں پاسکتے۔
زندگی میں کانٹے اپنی ایک خاص معنویت رکھتے ہیں، راہ میں جو حائل رکاوٹیں ہوتی ہیں انہیں پار کرنا ہی دراصل کامیابی ہوتی ہے بنا مشکل کسی بھی چیز کا حصول بے معنی ہوجاتا ہے۔
بقول فنا نظامی
کوئی سمجھے گا کیا رازِ گلشن
جب تک اُلجھے نہ کانٹوں سے دامن
ہم سب زندگی میں کبھی کبھی پھولوں کے حصول میں کانٹوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، کبھی کبھی خار جیسے لوگ مل جاتے ہیں جو اچھے لوگوں کی راہوں میں کانٹے بھر دیتے ہیں۔اللہ پاک سب کو برے لوگوں کے شر سے بچائے جو دوسروں کی راہوں میں تکلیف بکھیر کر کانٹوں کا کام کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہی دنیا میں نیک اور اچھے لوگ بھی مانند گل و لالہ بکھرے ہوئے ہیں جن کی اچھائیوں کی بدولت دنیا چل رہی ہے۔
بس اصل بات یہ ہے کہ اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے اور برے لوگوں سے دور رہا جائے۔
ایک بات طے ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ” جیسا کروگے ویسا بھرو گے”
اگر کبھی کسی کی راہ میں کانٹے بکھیرے تو ہو سکتا ہے وہ کانٹے کبھی خود کو بھی زندگی میں تنگ کریں، اس لئے ہمیشہ اچھائی اور نیکی کی راہ اپناتے ہوئے دوسروں کی راہوں میں پھول بکھیرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہماری اپنی راہیں بھی پھولوں سے معطّر رہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے کہ اُن کی راہوں میں مشرکوں نے کانٹے بچھائے لیکن وہ اُنہیں اللّہ کی راہ میں چلنے سے نہ روک سکے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ محبّتوں کے رواج کو فروغ دیں، محض مسکراہٹ کے گلاب بکھیر دینا بھی صدقہ جاریہ ہے کہ کوئی آپ کو دیکھ کر خوشی اور سکون محسوس کرے۔
ہماری اور دوسروں کی راہوں میں جو بھی خار آئیں انہیں ہٹاتے جائیں۔
خود بھی سکون سے جیئں اور دوسروں کو بھی سکون والی زیست گزارنے دیں۔
حیاتِ انساں کا مقصد اچّھائی اور نیکی سے دنیا میں اُجالا کرنا ہے نا کہ خار کی طرح چُبھنا۔
پھول ہمیشہ کانٹوں کے درمیان رہ کر بھی مُسکراتا ہے اور خوشبو بکھیرتا ہے۔
بقول راقم
پھولوں کی طرح مہکو دنیا میں تم
خوشبو کی طرح بکھرو
دنیا میں تم
ثمرین ندیم ثمر
دوحہ قطر
26 – 5 -25
Leave a Reply