تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!بقول شاعر:.
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
زندگی اداس ،سماج کے چہرے پر اداسی کے ساۓ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا زندگی کے پیرہن میں اس قدر سوراخ ہو چکے جن کی رفو گری کی ضرورت ہے اور یہ صرف درد کے پیوند ہی سے ممکن ہے۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس عہد میں جو حالات درپیش ہیں ان کے مطابق اس نگر کے لوگ اندر سے اس قدر زخمی ہیں کہ سنبھلنے کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔زندگی کا اصول بھی تو یہی ہے بقول شاعر:. کسی دردمند کے کام آ
غربت،افلاس،بیماریوں کے ہاتھوں سماج کی رونقیں ماند سی پڑ چکی ہیں۔قدیم زمانوں میں سادگی تھی،خلوص اور چاہت تھی۔لوگ ایک دوسرے کے کام آتے تھے ۔جیب ان کے اگرچہ خالی ہوتے تھے ۔مال و متاع کی کمی ہوتی تھی ۔خواہشات کا غلبہ بالکل نہ ہوتا تھا۔ایک ہمدردی اور محبت کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔شادی ہوتی کسی کے ہاں تو خوشیوں کی انتہا نہ ہوتی ہر کوئی اپنی ہی خوشی تصور کرتا تھا اور غمی کی کیفیت ہوتی تھی تو ہر کوئی اپنا ہی دکھ سمجھتا تھا گویا سماج خوب صورتی کی علامت اور معاشرے چاہت کے نمونہ تصور ہوتے تھے ۔ہمدردی،انصاف،مساوات،قناعت،سخاوت،جیسے اوصاف سے زندگی اور بھی حسین و جمیل محسوس ہوتی تھی گویا جینے کا مزہ اور ہی تھا۔عبادات،اخلاقیات اور معاملات میں بھی اخلاص کی فراوانی ہونے سے دلکشی کی جھلک نمایاں ہوتی تھی گویا ماضی میں اگرچہ کچھ مشکلات درپیش ہوتی تھیں لیکن قناعت اس قدر کی انسان صبر و سکون سے کام لیتے اور تھوڑے پر گزر بسر کرتے اور کچے مکانات میں زندگی بسر کر لیتے تھے۔سادہ زندگی لیکن محبت سے بھرپور اور آج روپے پیسے کی کثرت اور سہولیات تو موجود ہیں لیکن بے قراری سی ہر طرف جلوے دکھاتی ہے ۔بجلی بل کا رونا،کھانے پینے کی مہنگی اشیاء کا تذکرہ،زمینوں میں جنگلی جانوروں کی تباہی اور کسانوں کا شب بھر جاگنا، گویا بقول شاعر
میری نیند گئی،چین گیا،آرام گیا
کے مصداق زندگی بسر ہوتی ہے۔ایک بے قراری سی پائی جاتی ہے ۔اور تلاش اس بات کی کہاں گۓ وہ اخلاص والے لوگ,کہاں گئے وہ درد مند جو دردمندوں کے کام آتے ۔جدید آسائش سے استفادہ کرنے والے لوگ اتنے دکھی کیوں شاید کہ اخلاص کی کمی ہونے اور خود غرضی کے رجحان میں اضافہ سے اتنی بے قراری ہے کہ عہد ماضی کی حسیں یادوں کو ترستے ہیں لیکن اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا راز پانے سے قاصر ہیں۔کیا رزق حلال کمانے میں بددیانتی غالب اور بے احتیاطی کا عنصر زیادہ ہے۔کیا احساس دلوں سے نکل چکا اور گوشہ دل میں خود غرضی نے ڈیرے جما لیے۔کیا ہمدردی اور دوسروں کے کام آنا محض خواب بن چکا ہے۔عام جائزہ لیا جاۓ تو نوجوان نسل جدید سہولیات سے تو مستفید ہورہی ہے لیکن احساس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔منشیات کا زہر اور کثرت سے موبائل کا استعمال ایک مرض بن کر رہ چکا ہے۔اخلاقیات سے اس قدر بے اعتنائی کہ چھوٹے اور بڑے کی تمیز لاپروائی کے دبیز پردوں میں گم ہے۔معاملات زندگی کا قرینہ اس قدر بدل کر رہ گیا کہ اسلوب زندگی کی صداۓ بازگشت دشت تنہائی میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔
کیا تعلیم براۓ حصول مقاصد نہیں رہی کیا علم دنیا داری کے تاریک خانوں میں دب کر رہ گیا ہے ۔علم کی اہمیت کا احساس اجاگر کرنا اور منشیات کی تباہی کا مقصد واضح کرنا ہی تو درد کے پیوند ہیں۔جب سماج کی گرتی ساکھ کو بچانے کے لیے مخلصانہ کردار ادا کیا جاۓ تو یہی پیرہن زندگی میں درد کے پیوند لگانا ہے۔غموں کی تیز دھوپ میں پلتی زندگی کسی درد مند کی منتظر ہے۔کسی یتیم بچہ کی زندگی سنوارنا اور کسی بیوہ کی مشکلات کم کرنا ہی تو زندگی کے پیرہن میں درد کے پیوند لگانے کے مترادف ہے۔لیکن افسوس اس معاشرتی مزاج پر جہاں لوگ بےروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوں لیکن احساس زندہ نہ رہے ایسے میں ایک درد و سوز کی کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:.
تازہ افکار سے ہے جہان تازہ کی نمود
سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت تو وقت کی ضرورت ہے۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ہم نے درد و غم کے ساۓ میں پلتی زندگی کی کیفیت بہتر بنانا ہے تو محنت اور کوشش کی راہ اختیار کرنا ہوگی۔وگرنہ زندگی ایک بوجھ اور مشکلات ہی درپیش ہوں گی۔یہ حقیقت عیاں ہے بقول شاعر:۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
درد و غم کی کیفیت محض رونے دھونے سے ختم نہیں ہوتی اور درد کا احساس اس وقت تک زندہ نہیں ہوتا جب تک عمل نہ ہو,جدوجہد نہ ہو ,ضرورت فقط اس بات کی ہے ہمارے تعلیمی ادارے اس احساس کو زندہ کریں جس سے روحانی تسکین ملے اور قلب انسانی سکون محسوس کرے۔نیکی کا رجحان پیدا کرنے سے حالت زندگی بدل سکتی ہے۔محنت اور کوشش سے سماج میں تبدیلی رونما ہو پاتی ہے۔رزق حلال کمانے کے رجحان اور حرام کمانے سے دور رہنے,رشوت اور بدعنوانی کی حوصلہ شکنی سے بھی تو زندگی کے نکھار میں اور خوب صورتی پیدا کی جا سکتی ہے۔جس سماج میں محض خواہشات کی تکمیل کا مزاج غالب رہے وہاں بے سکونی کے ساۓ طویل ہی ہوتے ہیں۔انسانی رشتوں میں دراڑیں اس قدر کہ زندگی اداس سی لگتی ہے۔رویوں میں اس قدر سرد مہری کہ کسی کو کسی کی پروا نہیں،خود غرضی اس قدر کہ دوسروں کے مصائب کا احساس تک نہیں،دولت کمانے کا جنوں اس قدر زندگی کا مقصد یاد نہیں،انا پرستی اس قدر فقط اپنی برتری کا رجحان غالب گویا زندگی ایک شجر سایہ دار کی متلاشی ہے۔فقط اتنی سی گذارش ہے کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید کی تعلیمات سے اور حدیث رسولﷺ سے زندگی کے مزاج میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی ہے۔الفاظ میں ایسی مٹھاس ہو کہ دلوں میں اتر جائیں۔مزاج میں ایسی چاہت ہو کہ محبت زندہ رہے ،انداز زندگانی میں ایسی خوب صورتی ہو کہ رشک کی کیفیت جنم لے،اتحاد اور اتفاق ایسا ہو کہ انسانی رشتے مستحکم رہیں۔امیر اور غریب کی تمیز باقی نہ رہے۔فقط انسانیت کا احترام عزیز تر رہے۔نفرت کے چراغ گل ہوں الفت کے پھول شگفتہ رہیں۔اور یہ سبق یاد رہے بقول شاعر:.
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
رابطہ ۔03123377085
Leave a Reply