ڈاکٹر یا ماہرنفسیات؟
دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ انسان تیزی سے ترقی کی منزل کو طے کر رہا ہے، زندگی کی دوڑ میں ہر انسان دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں تگ و دو ہے۔ترقی کے شوروغل میں عورتیں بھی مرد کہ شانہ بشانہ ہیں۔لیکن یہاں پر ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے وہ سوال یہ ہے کہ آج کا انسان خود کو قبول کیوں نہیں کررہا؟اپنا موازنہ دوسروں سے کیوں کررہا ہے؟خود سے ہی اپنا موازنہ کیوں نہیں کرتا؟اپنی حیثیت کو قبول کیوں نہیں کرتا؟ہر پیشہ قابل عزت،قابل احترام ہے اور انسانیت کی مدد کیلۓ سرگرداں ہے لیکن وہیں کچھ بنی نوح انسان ایسے ہیں جو خود کو قبول نہیں کررہے اور اپنے پیشے کی عالمی سطح پر پہچان بنانے سے قاصر ہیں۔جی ہاں قارعین!میرا نام حافظہ علیزہ یعقوب ہے اور پیشے کے لحاظ سے میں ماہر نفسیات اور سپیچ لینگوئج تھیراپسٹ ہوں ۔ادھر میں جس پیشے کی بات کر رہی ہوں وہ نفسیات کا شعبہ ہے جس میں مریض کو کلائنٹ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے تاکہ اس کی دل آزاری نہ ہو ،اس کے ساتھ اچھا تعلق برقرار ہو سکے لیکن میں نے بہت سے ماہر نفسیات ایسے دیکھے ہیں جو خود کو ڈاکٹر کہلواتے ہیں ،ان کی تعلیم کوئی اور ہے لیکن وہ خود کو ڈاکٹر کہتے ہیں اور کہلوانے کا شوق رکھتے ہیں۔
جبکہ سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو ماہر نفسیات یا کلینیکل سائیکالوجسٹ کہا جاسکتا ہے۔اس میں کہیں نا کہیں قصور والدین کا ہوتا ہے جو بچپن سے بچوں کے ذہن میں بٹھا دیتے ہیں کہ بڑھے ہو کر آپ نے ڈاکٹر بننا ہے اور انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ انکا داخلہ ایم بی بی ایس میں ہوجاۓ اور جسکا داخلہ نہیں ہوپاتا وہ سرپاؤں دوڑاتا ہے کہ میڈیسن یا فزیو تھراپی میں چلا جاۓ تاکہ ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جاۓ اس میں بچے خود کے شوق کو پہچانتے ہی نہیں کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں انکی صرف کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح انکے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جاۓ اور اگر انکا ادھر بھی ایڈمیشن نہ ہوسکے تو وہ روتے بلکتے ہیں صرف اس وجہ سے اب انکے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیسے لگے گا؟ادھر قصور تعلیمی اداروں کا بھی ہے جو بچوں کی کیرئیر کونسلنگ نہیں کرتے کہ بچہ اپنے شوق کو پہچان سکے ،کہ اسکا رحجان کس طرف ہے ؟اسکی قابلیت کس فیلڈ میں ہے؟وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟اسکی اپنی مرضی کیا ہے؟
میں نے بہت سے ماہر نفسیات اس بات پر برہم ہوتے دیکھے ہیں کہ انکے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیوں نہیں لگایا گیا ؟بجاۓ کے وہ دوسرے سائیکالوجسٹ کی بھی رہنمائی کریں انھے گائیڈ کریں لیکن انکا اپنا دکھ تازہ ہوجاتا کہ انہوں نے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگایا ہوا تو انکے نام کے ساتھ کیوں نہیں لگا؟ اور ان سب کو دیکھ کر صرف افسوس ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر بھی ابھی تک ڈاکٹر بننے کی ریس میں تگ و دو ہیں بجاۓ کہ وہ اپنی فیلڈ کا نام روشن کریں خود کی قابلیت کو اجاگر کریں ذہنی مسائل سے دوچار کلائنٹ کا علاج ماہرنفسیات بھی کرسکتے ہیں نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لگنا ضروری نہیں ہے لیکن جب تک وہ خود ہی احساس کمتری میں ہیں وہ کلائنٹ کا کیا ہی علاج کرسکتے ہیں،نہ انکے پاس قابلیت ہوتی ہے کیونکہ سارا ذہن انکا نام کے ساتھ ڈاکٹر لگوانے پر ہوتا اور وہ مکمل توجہ سے کلائنٹ کا ٹریٹمنٹ ہی نہیں کرپاتے،اور ایسے نام نہاد ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد لوگ انھے باتیں کرنے والا ڈاکٹرکہتے ہیں۔اور یہی اگر وہ مکمل توجہ اور لگن سے کلائنٹ کو تھراپی دیں اور کلائنٹ کو مکمل صحتیابی حاصل ہوجاۓ تو کلائنٹ انھے خود ڈاکٹر صاحب\صاحبہ کہہ کر مخاطب کرلیتا ہے۔سو خدارا خود کو جانیں ،پہچانیں اپنی فیلڈ کا کام کریں جس میں آپ قابلیت رکھتے ہیں ،ہر فن مولا بننے کی بجاۓ ایک ڈیوٹی کو اچھے طریقے سے سرانجام دیں اور نام نہاد ڈاکٹر بننے کی ریس سے نکل کر نفسیات کے شعبے کو اجاگر کریں اور اپنی فیلڈ کو دوڑتی ہوئی دنیا میں متعارف کروائیں۔
Leave a Reply