Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پی اے ایف بیس (کورنگی کریک)

Articles , Snippets , / Thursday, May 1st, 2025

rki.news

سمندر اور ہم)۔ (گرینڈ میوزیکل شو: کمپیرنگ، قرعہء فال کس کے نام)۔(موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں میں ایک ہم ! “ہور چوپو گنے”)}

ائر فورس کی ملازمت کے دوران مختلف اوقات میں اگر کسی جگہ ہم سب سے زیادہ رہے تو وہ بیس کورنگی کریک تھا۔ سمندر سے ہمارے عشق کو ان پوسٹنگ نے مزید ہوا دی:

بدل رہا ہے شب روز راستہ خسروؔ
سنا ہے میری طرح در بدر سمندر ہے

اس ٹریننگ بیس پر تعیناتی کے دوران ہم نےاپنے ائرمین، دوست ممالک کے ائرمین اور کیڈٹس کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ پی اے ایف ائروناٹیکل کالج آف انجینرینگ کے رجسٹرار کے فرائض بھی انجام دیے۔ اسکولوں کے معاملات بھی دیکھے۔ مشاعرے بھی کروائے ساتھ ہی نظامت اور دیگر پروگرام کی کمپیرنگ بھی کی۔
جس گرینڈ میوزیکل شو کی ہم بات کرنے جارہے ہیں وہ 1980 کے ابتدائی مہینوں میں منعقد ہوا۔ اس شو میں اس وقت کے صفِ اول کے فنکاروں نے حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ ائرفورس میں بھی شاعرِ مشرق کے اس شعر پر عمل کیا جاتا ہے:

ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

شہر سے دور رہائش پذیر آفیسرز ، ائرمین اور دیگر سویلین افراد اور ان کی فیملیز کی دلچسپی لیے گاہے بگاہے مختلف پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ یہ میوزیکل شو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں حدِ نظر تک خواتین و مرد اپنے محبوب فنکاروں کو دیکھنے اور سننے کے لیے جمع تھے۔ برقی قمقموں سے جگمگاتے اسٹیج پر۔ مشہور غزل سنگر ” منی بیگم موجود تھیں۔ ساتھ ہی محمد علی شہکی، عالمگیر، ماجد جہا نگیر اور اسماعیل تارا۔ مقامی فنکار الگ۔ اس پروگرام کی کمپیرنگ پر کوئی اور آفیسر مامور تھے لیکن بیس انتظامیہ نے پروگرام والے دن یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی۔ فوج میں کسی کام کے لیے No کی تو گنجائش نہیں ہوتی ۔ قہرِ درویش برجانِ درویش”کمانڈ ہم نے سنبھال لی”۔ تمام فنکاروں کو فی البدیہ اشعار، منتخب جملوں کے ساتھ اسٹیج پر رونق افروز ہونے کی دعوت دیتے رہے۔ چند ایک لیے کہے گئے خیر مقدمی کلمات پیش ہیں۔
غزل گائیکی میں منفرد انداز کی حامل فنکارہ منی بیگم کو اسٹیج پر کچھ یوں بلایا:

سُر میں گاتی ہیں تو مٹ جاتا ہے اپنا ہر غم
دیکھو دیکھو وہ چلی آتی ہیں منی بیگم

منی بیگم نے آکر اپنا ہارمونیم سنبھالا، سازندوں نے ساز اور سماں باندھ دیا۔
ابھی منی بیگم کا سحر ٹوٹا نہیں تھا کہ ہم نے
اسٹیج ٹی وی کی مشہور مزاحیہ جوڑی کو دعوت دی:

نہیں ان کے بِنا اپنا گزارا
وہ ماجد ہوں کہ اسماعیل تارا

دونوں کے برجستہ مزاحیہ چٹکلوں سے ماحول زعفران زار بن گیا۔

دل کی دھڑکن کو بڑھا دیتا ہے شہکی کا گٹار
کرکے آتی ہیں عروسانِ چمن سولہ سنگھار

شہکی کے گانے اور انداز نے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کردیا چند ایک نے بےقابو ہوکر اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش کی فورا” ڈیوٹی پر موجود باوردی فورس نے انہیں قابو کرلیا۔ اب اتنی چھوٹ تو نہیں دی جاسکتی۔ “ڈسپلن” بھی آخر کوئی چیز ہے۔
شہکی کو فرمائش پر بھی گانا پڑا۔

اب عالمگیر کو بلانے کا مرحلہ تھا۔ وہ پہنچ تو گئے تھے لیکن اپنی گاڑی میں تھے اور مسلسل شراب نوشی میں مصروف۔ یہ صورتِ حال پریشان کن تھی۔ خیر ان کے منیجر یا دوست جو کوئی بھی تھا اس نے انہیں گاڑی سے اتارا ادھر ہم نے سگنل کلیر پاکر مائک سنبھالا اور یوں گویا ہوئے۔
تاریخ میں ایک عالمگیر وہ تھا جس کی حکومت روئے زمین پر تھی اور ایک عالمگیر یہ ہے کہ جس کا قبضہ روئے زمین پر تو نہیں البتہ زمینِ دل پر ضرور ہے۔ تشریف لاتے ہیں مشہورِ زمانہ پاپ سنگر عالمگیر۔
عالمگیر کیا آئے مجمع میں جیسے برقی رو دوڑ گئی۔ عالمگیر اور گٹار یک جان تھے۔ لگتا تھا کہ گانے کے بول عالمگیر کے منہ سے نہیں گٹار کے تاروں سے پھوٹ رہے ہیں۔ نغمہ و رنگ کا یہ طوفان رات گئے کہیں جاکر تھما۔

“خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا”
دوسرے دن آفیسر کمانڈنگ ایڈمن ونگ نے ہمیں بلا بھیجا گزشتہ شب کے پروگرام کی تعریف اور ساتھ ہی اپنی رہائش گاہ پر ہر ہفتے جمنے والی موسیقی کی محفل میں مستقل شرکت کا مژدہ سنایا۔ ہمیں موسیقی کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں تھی (نہ اب ہے) . لیکن دوسروں کی نظر میں یہ دعوت بھی کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ ہم شکریہ ادا کرکے دل ہی دل میں

“ہور چوپو، گنے” کی گردان کتے رخصت ہوگئے۔(جاری ہے)
(فیروز ناطق خسروؔ)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International