rki.news
ناز پروین
احساس
ایران ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے ۔اس کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ بہتری کی جانب گامزن ہیں ۔جس کا مظاہرہ اعلیٰ سطحی سیاسی دو طرفہ دورے ہیں۔کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے اس کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو مضبوط ہونا چاہیے ۔چین کے بعد اب ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات دن بدن بہتری کی طرف جا رہے ہیں ۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے 22 تا 24 اپریل 2024 کو پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا جس کے دوران وہ اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور کراچی بھی گئے اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کیے۔اور اب ایران کے موجودہ صدر جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر تشریف لائے ۔منصب صدارت سنبھالنے کے بعد ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا کسی بھی ملک کا یہ پہلا دورہ تھا ۔ایرانی صدر اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ لاہور تشریف لائے۔جہاں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ایرانی صدر نے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی ۔ایرانی علامہ اقبال سے خصوصی عقیدت رکھتے ہیں ۔جس کا مظاہرہ ایرانی صدر کے علامہ اقبال کے مزار پر حاضری سے تھا
ڈاکٹر پزشکیان نے علامہ اقبال کے مزار پر پھولوں کی چادریں رکھیں، مزار پر فاتحہ خوانی کی ۔ انہوں نے زائرین کی کتاب (visitor’s book) میں علامہ اقبال کے اسلامی فلسفہ،تحریک پاکستان اور نظریاتی بصیرت پر خلوص آمیز تاثرات درج کیے ۔تقریب کی سربراہی مولانا عبدالخبیر آزاد (خطيب بادشاہی مسجد اور چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی) نے کی اور ان کی قیادت میں دعائیں کی گئیں ۔
اس کے بعد وہ اسلام آباد پہنچے، جہاں وزیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سمیت اعلیٰ حکام نے نور خان ایئر بیس پر ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔صدر کے اعزاز میں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا، جسے پنجاب رینجرز کے نمائندوں نے ترتیب دیا تھا ۔ انہیں 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی ۔
پورے دورے کے دوران سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے، تاکہ صدر اور ان کے وفد کو حفاظت کے ساتھ پہنچایا جا سکے ۔لاہور میں آمد سے لے کر اسلام آباد روانگی تک سڑکیں استقبالی بینرز اور دونوں ممالک کے پرچموں سے سجائی گئیں ۔جبکہ تمام ٹی وی وی چینلز اور میڈیا پر اس دورے کو خصوصی کوریج دی گئی ۔ٹی وی چینلز پر ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان خوش آمدید ۔چشم ما روشن دل ماشاد کی پٹیاں چلتی رہیں ۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ”پورا ملک ایرانی صدر اور ان کے وفد کا جشن کی صورت میں استقبال کر رہا ہے۔ اسلام آباد کے راستے پاکستانی اور ایرانی پرچموں، رہنماؤں کی تصویروں سے سجائے گئے “
ایرانی صدر نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی، جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ وفود کی سطح پر وسیع مذاکرات ہوئے ۔ان مذاکرات میں دو طرفہ تجارتی حجم کو 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف٫ سرحدی تحفظ اور سیکورٹی تعاون ٫
توانائی، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ، ثقافتی تبادلے اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون ٫
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں ایران کی شمولیت کی کوشش پر بات چیت کی گئی ۔ دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو نئی جہت دینے، سیاسی و معاشی تعاون کو مزید جامع بنانے کا عہد کیا ۔سرحدی خطے میں سرگرمی بڑھانے کے لیے مشترکہ سرحدی مارکیٹیں قائم کرنے اور بارڈر میکانزم مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ صدر مسعود پزشکیان کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے اتحاد کا بھی مظہر تھا ۔ماضی میں شیعہ سنی تضادات کو ہوا دے کر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی بارہا سازش کی گئی گئی لیکن دونوں طرف سے ہی ہمیشہ ایسی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور امت مسلمہ کے اتحاد کو ہمیشہ فوقیت دی گئی۔ ۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایران سے دوستانہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے سعدی شیرازی کا کلام پڑھا
دوست مشمار آن که در نعمت زند
لاف یاری و برادر خواندگی
دوست آن دانم که گیرد دست دوست
در پریشان حالی و درماندگی
اردو ترجمہ
دوست اسے نہ سمجھو جو خوشحالی میں ساتھ دے،
اور صرف زبان سے دوستی اور بھائی چارے کے دعوے کرے۔
میں تو اسے دوست جانتا ہوں جو مشکل وقت میں ساتھ دے،
اور پریشانی و مصیبت میں مدد کرے۔
ایران و پاکستان دونوں ہی مشکل وقت میں سفارتی محاذ پر بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے آئے ہیں ۔وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ۔اور اسے عالمی دہشت گردی قرار دیا ۔جبکہ ایران نے جس طرح اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران کے پاس بھرپور دفاعی صلاحیت ہے۔اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایرانی میزائلوں کے تابڑ توڑ حملوں نے اسرائیل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور اس بات کو ثابت کر دیا کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں۔۔
شہباز شریف نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کی حمایت بھی کی ۔ ۔جب کہ ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار پر شدید دکھ اور غم کا اظہار کیا ۔دونوں ملکوں کے سربراہوں نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے ۔ایرانی صدر کے وفد میں اعلیٰ عہدے دار خواتین بھی شامل تھیں ۔جو مغرب کے اس پروپیگنڈے کا بھرپور جواب ہے کہ ایران میں خواتین پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے انہیں مردوں کے برابر کام نہیں کرنے دیا جاتا ۔یہ ایرانی خواتین مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتی رہیں ۔دو طرفہ معاہدوں میں شریک رہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی میں حصہ لے رہی ہیں ۔اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام میں بھی برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوئے ۔پشاور میں کئی لوگ فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں ۔اور بہت سے گھروں میں فارسی بولی جاتی ہے ۔ہمارے نامور ادیب اور شاعر فارسی میں شاعری کرتے رہے ۔جبکہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد تو تمام تاجر حضرات فارسی روانی سے بولتے ہیں ۔پاکستان میں شیعہ بڑی تعداد میں بستے ہیں جنہیں اپنے مسلک کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ۔پاکستان سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں زائرین ایران کا رخ کرتے ہیں مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ پشاور میں قائم خانہ فرہنگ ایرانی ثقافتی مذہبی اور ادبی تقاریب کا مرکز ہے ۔جہاں شہر کی نامور سیاسی ادبی مذہبی کاروباری شخصیات باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں ۔یوں ایران اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات عوام کی سطح پر بھی قائم و دائم ہیں ۔اس دورے کے دوران جو معاہدے کیے گئے اگر ان پر خلوص نیت سے عمل درآمد کیا گیا تو نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ دونوں ملکوں کے عوام بھی باہمی تجارت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ دورہ نہ صرف اقتصادی بلکہ جیو پولیٹیکل اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات کا نیا باب کھل سکتا ہے، جس میں تجارت، توانائی، سیکورٹی اور خطے میں تعاون شامل ہیں ۔
Leave a Reply