Today ePaper
Rahbar e Kisan International

چلو آج کچھ اچھا کھاتے ہیں

Articles , Snippets , / Thursday, February 6th, 2025

اچھا کھانا
اچھا پہننا
اچھی رہائش رکھنا
صرف میرا اور آپ کا ہی مسئلہ نہیں ہے یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے. ہر کس وناکس کا دل چاہتا ہے کہ اس کی زندگی امن سے، سکون سے اور ہالہ عزت و شفقت میں بسر ہو. اور اس میں بھی کوی شک نہیں کہ زندگی بسر کرنے سے بڑی آزمائش بھی اور کوی نہیں ہے. مگر ہم انسان پھر بھی صبح سے شام اور شام سے رات کرتے کرتے بالآخر زندگی بتا ہے جاتے ہیں.
اب زندگی بتا دینے کے فلسفے میں بھی ہمارا یا آپ کا کوئی کمال نہیں ہے. یہ رب کی ایک نعمت ہے جو ہر ذی روح کی طرح انسانوں کو بھی ایک مقرر مدت کے لیے عطا ی جاتی ہے،خیر بلا تفریق مذہب ورنگ و نسل، بلا تفریق سرحد و بارڈر تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دنیا کے تمام لوگوں کا ہی اس بات پہ مکمل یقین اور اعتقاد ہے کہ یہ زندگی اس دنیا میں سواے ایک مختصر قیام کے اور کچھ بھی نہیں ہے. تو اسی عقیدے کو سامنے رکھتے ہوئے تمام انسان اپنی اپنی زندگیوں کو ہر ممکن حد تک خوشگوار اور پر مسرت بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں.
کھانے پینے کے معاملات کچھ ایسے نازک ہیں کہ کوی بھی انسان اپنے من پسند کھاجے اور ذایقے پہ سمجھوتہ کر ہی نہیں سکتا.
طرح طرح کے کھانے، مزے مزے کے پکوان جنہیں کھانے کے لیے ہم ہزار جتن کرتے ہیں اور اپنے اس کھانے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے کءی مرتبہ تو منہ مانگی قیمت چکانے سے بھی گریز نہیں کرتے، آج سے تقریباً دو دھای پیچھے چلے جائیں تو سماج میں گھر کا باورچی خانہ ہی لذت کام و دہن کا خزانہ اور من پسند کھانوں کا سب سے بڑا ہوٹل ہوتا تھا اور خاتون خانہ یعنی والدہ ماجدہ کو اس ہوٹل کے سب سے ماہر اور تربیت یافتہ شیف کا درجہ حاصل ہوتا تھا جو نہ صرف گھر کے تمام افراد کی کھانے کے بارے میں پسند ناپسند سے واقف ہوتا تھا بلکہ گروسری سے کھانے پکانے تک کی مشقت اکیلے بھگتنے کی سر پیڑ سے بھی اکیلے ہی نمٹ لیتا تھا اس وقت لوہے کے چولہوں میں لکڑیاں جلا کر سالن بھی بنتا تھا اور گھر جے بڑےاور بچے امی جی کے چاروں طرف گھیرا بنا کر گرما گرم روٹی کے انتظار میں بیٹھ جاتے تھے، سب ایک دوسرے سے دل کی کہتے اور سنتے تھے اور ساتھ ساتھ گرم گرم پھلکے اور ترکاری کا لطف اٹھاتے تھے ان بھلے زمانوں میں ابھی پرائیویسی نامی عفریت کسی عقوبت خانے میں ہی قید تھا، دادا، دادی، ماسی، پھوپھیاں، ماموں، چاچے سب مل جل کے اکٹھے ہی رہتے تھے گھر چھوٹے اور دل بڑے تھے. پھر نہ جانے ہمارے ہنستے بستے گھرانوں کو کس کی نظر لگ گءی کہ ہم نمود و نمایش کے عفریت کا اس بری طرح سے شکار ہوے کہ پھر ہمیشہ کے لیے نمود و نمایش کے ہی ہو کے رہ گیے گھروں کے کھانے پکانے کے لیے شیف آگیے، کھانا، ڈایینگ ٹیبل پہ بیٹھ کے کھایا جانے لگا، اور اسی پہ بس نہیں کھانے کے لیے اتنے زیادہ انتخابات ہو گیے کہ جن کی جیب میں پیسہ تھا ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ آج کیا کھائیں یہ بالکل ایسا ہی مسئلہ ہے جیسا ماں بھولی محدود وسائل میں روزانہ ہی سب سے فرداً فرداً پوچھتی تھی کہ آج کیا پکائیں لیکن اس پوچھنے اور پکانے میں جو محبت اور محبت کا ذایقہ تھا وہ پوری دنیا کے بڑے سے بڑے شیف کے کھانے میں بھی نہیں مل. پایا.
وہ ذایقہ محبت تھا
ماں جسے گوندھتی تھی روٹی میں
خیر بات پھجے کے پاے، قصوری فالودے اور محمدی نہاری سے ہوتی ہوی، کباب جی، پاپا جان، لیرز،کیکس اینڈ بیکس، Domino’s اور chezious سے ہوتی ہواتی اللہ جانے کہاں پہنچ چکی ہے. پزا، شوارما اور برگرز کھانے والے یہ معصوم بچے پندرہ دنوں کے قلیل عرصے میں پروان چڑھاے جانے والے فارمی مرغے اور مرغیوں کے ذایقے کے رسیا ہیں، اب سچ پوچھیں تو گھر کے کھانے قصہ پارینہ بن چکے ہیں، کھانا نہیں تو دہی بھلے، فروٹ چاٹ، پاپڑی چاٹ، ملک شیکس، فریش جوسز، آیس کریمز، اور آج کل تو بیکری آیٹیمز نے تمام بچوں بڑوں کو یکساں طور اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے.
ثمرن بہت ہی اچھے دل کی لڑکی تھی جسے سب سے مل. جل کے رہنا بہت پسند تھا، اس کے ابو بہت بڑے مل اونر تھے، روپیہ پیسہ ان کے گھر کی لونڈی تھی، چند دن پہلے ثمرن کی چند کلاس فیلوز اس کے گھر آءیں تھیں، گھر میں کھانے پینے کا مکمل. بندوبست تھا، مگر ثمرن کی ایک نک چڑھی سہیلی نے دھیمے سے ثمرن کو کہا، لو بھلا آج کل کے زمانے میں کون بھلا گھر آے مہمانوں کو گھر کے کھانے پہ ٹرخاتا ہے، ثمرن بیچاری نے کھانے سے بھری ہوی کھانے کی میز کے باوجود بھی اپنی سہیلی کو خوش کرنے کے لیے تمام سہیلیوں کے لیے پزا آرڈر کیا اور وقت کے سنگین لمحات میں تھوڑا سا رنگ بھرنے کی ایک ہلکی سی کوشش کی.
علیحا کو میں جب بھی دیکھتی ہوں تو سوچتی اللہ جانے وہ کس مٹی سے بنی ہوی ہے اس کے خزانے ہر کس و ناکس کے لیے ہمیشہ کھلے ہی رہتے ہیں، اس کی جس سہیلی کا بھی جب کچھ اچھا اور مہنگا کھانے کو جی چاہتا ہے تو وہ بلا جھجھک علیحا کے گھر کا رخ کرتا ہے اور علیحا دنیاوی مطلب پرستی کو بھانپ کے بھی اپنی سہیلیوں کو ان کے من بھاتے کھاجے کھلانے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے یہ جانتے ہوے بھی کہ
چڑھتے سورج کی پجاری دنیا
کچھ نہ تھا جھوٹ تھی ساری دنیا
جھوٹی دنیا کے تمام سچوں کو سلام جن کے دم قدم سے کاروان حیات رواں دواں ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International