تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

چمن کی فکر کسے ہے؟

Articles , Snippets , / Tuesday, July 9th, 2024

میرے دوست فخر زمان سرحدی اپنی حب الوطنی کے ہاتھوں مجبور ہو کر چمن کی فکر کے عنوان سے ایک عرصہ سے اخلاقی ، اصلاحی اور حب الوطنی کے کالم لکھتے آ رہے ہیں۔ یہ ان کی اپنی خاک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی مٹی سے محبت کریں مگر مشاہدے میں ہمیشہ سے یہی آ رہا ہے کہ جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں جو اختیارات کے مالک نہیں جو مجبور و بے کس و ناکس ہیں میرے دیس میں بس وہی محب وطن ہیں اور انھیں ہی اپنے چمن کی فکر ہے کہ چمن کہیں خزاں سے اجڑ نہ جائے کہیں باغبان و برق و شرر کی کارستانیاں اسے برباد نہ کر دیں۔ میرے دیس کا وہی طبقہ ملک کا مخلص اور وطن کی تباہی پر کڑھتا ہے جو بے بس و بے اختیار ہے۔ جو کسی قسم کی کرپشن اس لیئے نہیں کر سکتا کہ اس کے دائرہ اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ ورنہ ہر وہ کس و ناکس جس کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ وہ کرپٹ بھی ہے اور ملک کے برگ و بار کو نوچ نوچ کر چمن کو خزاں رسیدہ ہی نہیں کر رہا بلکہ خزاں کو اجاڑنے میں کوئی کسر کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہا۔ بلکہ ہر صاحبِ استطاعت اور ہر صاحبِ اختیارات اس ملک کو بری طرح سے پامال کیے جا رہا ہے۔ اس ملک کو بحرانوں میں ڈھکیل کر فارن میں اپنے اثاثے بنائے جا رہا ہے۔ کوئی اداری ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔ ہر اداری اپنے دائرہ اختیار کے اندر کرپشن کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ کوئی مال و زر کی کرپشن میں ملوث ہے تو کوئی چور بازاری اور وقت کے ضیاع کی کرپشن میں گرفتار دکھائی دیتا ہے۔ یہاں چمن کی فکر کس کو ہے۔ جب قومیں ہجوم میں بدلتی ہیں تو نفسا نفسی کا قیامت خیز منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔ یہاں بھی گوٹ قبیلے تو بستے ہیں کوئی ایک قوم چاہے مسلمان کی نسبت سے ہو یا پاکستان کی نسبت سے نہیں بستی ۔ اس لیے جس کا ہاتھ جس گل تک پہنچتا ہے وہ گلچیں ہی نکلتا ہے۔ جس کا ہاتھ ہی گل و برگ اور ثمر تک نہ پہنچے وہ محب چمن بھی ہے اور اسے ہی چمن کی فکر بھی رہتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اسے چمن عزیز ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ خود تو کچھ کھا نہیں سکتا اور دوسرے کھاتے ہوؤں کو وہ دیکھ بھی نہیں سکتا۔ یعنی دوسرے کھاتے ہوئے اسے ہضم نہیں ہو سکتے۔ ان کے کھانے کا درد اسے حرفِ شکایت پر لے آتا ہے۔ یہ ملک تو اس ملک کے سپوتوں کے لیئے ہی مال غنیمت بنا ہوا ہے اور جس جس کو جتنا جتنا ہاتھ پہنچتا ہے وہ اسے لوٹ کر اپنا گھر بھرے جا رہا ہے۔ مال مفت دل بے رحم ۔ یہاں اجتماعی سوچ تو کبھی پروان چڑھی ہی نہیں ہے بلکہ اجتماعیت کو ہمیشہ انفرادیت نے مات دی ہے۔ یہاں ہر ایک نے لوٹ مار کے لیئے اپنے اپنے بت تراش رکھے ہیں اور ان کی پوجا کی جا رہی ہے۔ اسی لیئے کوئی بھی چور کو چور کہنے کی جسارت نہیں کرتا کہ اس آئینے میں اسے اپنا آپ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اگر کسی کو چور چور کہا بھی جایا جانے لگے تو چند دن بعد وہ چور کہنے والا اسی چور کا رطب اللسان دکھائی دیتا ہے۔ وہ چور اس لیے نہیں کہتا کہ اسے اس کی چوری پر کوئی اعتراض ہوتا ہے بلکہ یہ چور چور کی رٹ اسے بڑے قومی چور کو بلیک میل کر کے کرپشن کے حصے سے اپنا منہ بند کروانے کا واویلا ہوتا ہے۔ جب کرپشن کی ہڈی اس چور چور کا شور مچانے والے کہ منہ میں آ جاتی ہے تو خودکار سسٹم کے تحت اس کا منہ بند ہو جاتا ہے اور پھر وہ اسی چور کا قصیدہ خواں نظر آتا ہے۔ یہاں جتنے بھی بڑے ہیں انھوں نے اپنے آپ کو سہولیات سے نوازنے کے لیئے ہی سب قانون سازی کی ہے، کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گئے۔ عام عوام بلکہ سرحدوں کے مجبور و معذور قیدیوں کے لیئے مہنگائی اور ٹیکس در ٹیکس کے بم ہی گرائے جائیں گے۔ ملک خداداد کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں عوام اور چھوٹے ملازمین کی چمڑی نہ اڈھیری جا رہی ہو۔ یہ ملک ان لوگوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں جو نہ تو اس ملک میں رہنے کے قابل رہے ہیں اور نہ ہی اس ملک سے بھاگنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر ہر افسر دوسروں کی زندگی اجیرن بنانے کی تنخواہ کے رہا ہے۔ بلکہ مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کی آفسر اعلیٰ اپنے نائب قاصد یا کلاس فور ملازم پر نظر رکھے ہوتا ہے کہ یہ مجھے کیا کھلائے گا یا مجھے کیا تحفہ پیش کرے گا۔ یہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس ملک پر کوئی بھی اس ملک کے مفادات کا محافظ مسلط نہیں ہو سکا بلکہ اغیار اور اسلام دشمن ممالک کے مفادات کے محافظین نے ہی اس ملک کے قصر اقتدار میں بسیرا کیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر شخصی آمریت کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اغیار کی ایما پر مسندِ اقتدار میں غلام بدلے جاتے رہے ہیں۔ یہاں کئی کئی مسخروں کو تاج شاہی پہنے دیکھا گیا ہے۔ جن کی جگہ کسی سرکس میں ہونی چاہیے تھی انھیں ان کے فہم و ادراک سے بھی اونچا لے جا کر بٹھا دیا گیا۔ بلکہ وہ کیا جانیں کہ چمن کیا ہے اور اس کی نگہداشت کیسے کی جاتی ہے۔ انھیں چمن کی کیا فکر جو چمن کے تمام گل نوچ کر اپنے محلات نما مربعوں پر تعمیر سنگ مرمر کے جھونپڑوں میں سجانے پر دن رات مصروف ہیں۔ وہ تو ایسے گلچیں ہیں کہ جو گل ہی کیا برگ و بار اور کلیاں تک نوچنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ اور اس ملک کی محب وطن عوام ان ہی گلچینوں کے دفاع اور وفاداری میں ہر اخلاقی و غیر اخلاقی حد کو پار کر گزرتی ہے۔ یہاں کا دکاندار بلیک مارکیٹنگ کرتا ہے۔ زیادہ منافع کی لالچ میں ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ کس کس کا نام لوں بس صیغہ ابہام کہیں یا صیغہ جمع یہاں تو ہر ایک اپنی حیثیت اور اپنی اوقات کے مطابق چور یے۔ کوئی عناصر کا چور ہے تو کوئی وقت اور قلم کی حرمت کا چور۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ امتحانات میں نقل کروا کر اپنی نسلوں کی خود بربادی کے مجرم بھی ہم سب ہی ہیں۔ جو ملک کو کریم کے بجائے کچرا فراہم کر رہے ہیں۔ سکولوں میں شاہین بچوں کو خاک بازی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو سلامی دینے اور پروٹوکول دینے کے لیئے ننھے ننھے بچوں کو غلامی کی تربیت دی جاتی ہے کہ کس طرح صاحب بہادر کو سیلوٹ پیش کیا جاتا ہے اور ان کی اوٹ پٹانگ خطابات پر کیسے سمجھے ان سمجھے میں تالیاں بجا کر ان کو داد و تحسین پیش کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں نا کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ یہاں بھی اس ملک کی کون سی کل سیدھی ہے کہ اسے نہ رویا جائے۔ یہاں تو ساری ہیں کلیں الٹی ہیں۔ قانون بنایا جاتا ہے لاقانونیت کو فروغ دینے کے لیے ۔ اللّٰہ ہی اس ملک پر کوئی فضل کرے اور اس عوامی ہجوم کے شعور کو بیدار کر کے اسے ایک قوم بنا دے تو بنا دے ورنہ ان غلاموں میں جاگنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International