عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھو میاں منہ لٹکائے کمرے میں داخل ہوئے ، ہم نے اُن کی ایسی حالت دیکھ کر فوراً پوچھا ، بدھو میاں کیا ہو گیا ہے کیوں اتنے مغموم ہیں ، کہنے لگے ابھی آپ کی طرف آتے ہوئے راستے میں موبائل فون سے محروم ہو کر یہاں تک پہنچا ہوں ۔ ایک تو راہزنوں نے اچانک سامنے آ کر جب پستول آنکھوں کے سامنے لہرائی ، تو ہمارا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ، پھر انہوں نے اطمینان سے ہماری اوپر سے نیچے تک جامہ تلاشی لی اور تمام نقدی و موبائل فون اپنا سمجھ کر یوں اطمینان سے روانہ ہوئے جیسے انہیں کسی قانونی گرفت کا زرا سا بھی خوف نہ ہو ۔ ہم نے کہا بدھو میاں آپ نے مزاحمت نہیں کی ، تو جواباً کہنے لگے یعنی آپ چاہتے ہیں کہ چھینا جھپٹی میں جیسے آئے روز کسی کے مرنے یا زخمی ہونے کی خبر سننے کو ملتی ہے ، کل آپ کو ہماری بھی خبر مل جاتی ، راہزن تو زرا سی بات پر گولی مارنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کیونکہ انہیں کسی سزا کا خوف جو نہیں ہے ۔ ہم نے کہا خیر اب تو یہ معمول کی بات بن چکی ہے اب اتنی سی بات پر دل اتنا ملول کیا کرنا ۔ بدھو میاں نے حسبِ عادت گھورتے ہوئے کہا کیا مطلب ہے اِس بات کا جس کی جمع پونجی ایک دم یوں چھین لی جاتی ہے اُس سے پوچھیں کہ یہ معمول کی بات ہے یا ملول ہونے کی بات ہے ، پھر کہنے لگے اتنی دیدہ دلیری سے جو یہ چوریاں ہو رہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ چور پکڑنے والے ہی چوروں سے ملے ہوئے ہیں ، اور دوسری سب سے اہم ایک بات اور بھی ہے ، ہم نے کہا کہ اب وہ اہم بات بھی بتا ہی دیجئے ، تو بدھو میاں فرمانے لگے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو ڈنکے کی چوٹ پر چوریاں ہوتی ہیں تو ان چوری کی اشیاء کے خریدار موجود ہیں اور یہی خریدار دراصل اس چوری کے درخت کی اصل جڑ ہیں ، جن کا قلعہ قمع کرنا ضروری ہے ۔ بدھو میاں کہنے لگے شہر میں کہیں موبائل فون چوری ہو رہا ہے، کہیں گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس نکالے جا رہے ہیں، کہیں نالیوں کے ڈھکنوں سے سریا نکالا جا رہا ہے اور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ ان راہزنوں سے چوری کی اشیاء خریدنے والے موجود ہیں ، کیونکہ اگر چوری کی اشیاء کے خریدار نہ ہوں تو راہزن یہ اشیاء کہاں بیچیں گے ، اور اس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہونے سے جرائم کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی ۔ پھر حسبِ عادت بدھو میاں تفصیل سے بتانے لگے کہ دنیا میں جرائم کے پھیلاؤ کی یوں تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن چوری کے فروغ میں سب سے بڑا کردار دو لوگوں کا ہوتا ہے ایک قانون نافذ کرنے والوں کا ، جن کا ان راہزنوں سے گٹھ بندھن معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے اور دوسرا چوری شدہ اشیاء خریدنے والوں کا موجود ہونا ۔ اگر چوری شدہ اشیاء کی مارکیٹ میں مانگ نہ ہو تو ان راہزنوں اور ڈاکوؤں کے لیے اپنا جرم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چوری کی اشیاء کے خریدار ہی اس برائی کے پودے کی اصل جڑ ہیں۔ ہم نے کہا بلاشبہ چوری اور ڈاکہ ایک سماجی برائی ہے جو نہ صرف متاثرہ فرد کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک اور زہر قاتل ثابت ہوتی ہے ۔ یہ وارداتیں لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہیں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ بڑھاتی ہیں کہ جرائم کی بیخ کنی کی جائے ، اور جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ، لیکن اگر چوری شدہ اشیاء کے خریدار ہی نہ ہوں تو واقعی چوری کرنے والوں کے لیے یہ اشیاء بیچنا ناصرف بہت مشکل ہو جائے گا بلکہ وہ اس عمل سے باز بھی آ سکتے ہیں۔ بدھو میاں فوراً اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہنے لگے چوری شدہ اشیاء کے خریدار ہی دراصل راہزنوں کے سہولت کار ہوتے ہیں ۔ ان کے بغیر چوری کا کاروبار کبھی پنپ نہیں سکتا۔ جب کوئی شخص سستی قیمت میں چوری شدہ اشیاء خریدتا ہے ، تو وہ دراصل اپنے زرا سے فائدے کے لئے براہِ راست جرم کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ راہزن نڈر ہو کر مزید چوریاں کرتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی پنپتا رہتا ہے ۔ ہم نے بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ چوری شدہ اشیاء خریدنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اخلاقی اور مذہبی طور پر بھی غلط ہے ۔ اسلام سمیت تمام مذاہب اور مہذب معاشرے اس عمل کی مذمت کرتے ہیں ۔ چوری کی اشیاء خریدنے سے نہ صرف وہ فرد اپنی اخلاقی اقدار سے دور ہو جاتا ہے ، بلکہ پورے معاشرے میں بدعنوانی اور لالچ کو فروغ دینے کا مجرم بن جاتا ہے ۔ ہم نے کہا کہ اس کے لئے لوگوں میں شعور اجاگر کیا جانا چاہیے کہ سستی قیمت پر ملنے والی چوری شدہ اشیاء کو خریدنا ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور قانوناً جرم بھی ہے ۔ اس کے لئے علماء کرام کو بھی اپنے خطبات میں اس برائی پر روشنی ڈالنی چاہئے اور اس پر آنے والی کڑی سرزنش سے آگاہ کرنا چاہئے ۔ حکومت کو ایسے قوانین پر سزائیں مزید سخت کرنی چاہئیں اور یہ سزائیں عوام کو نظر بھی آنی چاہئیں تاکہ ان جرائم کی حوصلہ شکنی ہو سکے ۔ چوری شدہ اشیاء خریدنے والوں کے خلاف کارروائیوں کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ ہر فرد کو یہ احساس ہو جائے کہ اگر وہ چوری کی اشیاء خریدے گا تو وہ بھی جرم میں شریک ہی ہوگا اور کڑی سزا کا حقدار ہو گا ۔ قارئین ہم تو بدھو میاں کیساتھ تھانے رپورٹ کرنے جا رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے باوجود یہ برائی یوں ہی پھیلتی رہے گی جب تک یہ شعور اجاگر نہیں ہو گا کہ روز جزا ان سب کا حساب دینا ہو گا اور تب دنیا کا سامان جو اس چوری سے کمایا ہے کچھ کام نہ دے گا
~ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
Leave a Reply