Today ePaper
Rahbar e Kisan International

(چھدرو نامہ) اخلاقی اقدار

Articles , Snippets , / Monday, May 5th, 2025

rki.news

ازقلم 🖊:
آصف نیازی ملنگ بابا

اخلاقی اقدار کسی بھی مہذب اور زندہ معاشرے کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہ وہ خوبیاں اور اصول ہیں جو انسان کو محض ایک جیتے جاگتے جسم سے نکال کر صاحبِ ضمیر اور باوقار شخصیت میں ڈھالتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کی ترتیب، خاندانی نظام کا استحکام، اداروں کی بقاء، عدل و انصاف کا قیام، اور انسانیت کی بقا، سب انہی اخلاقی اصولوں سے جڑی ہوتی ہے۔ صداقت، دیانت، عدل، احسان، صبر، رحم، حیا، معافی، اور شکرگزاری جیسی صفات ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتی ہیں جہاں فرد فرد امن، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ مگر افسوس، آج کا انسان ان ہی اقدار سے منہ موڑے کھڑا ہے جن کی بنیاد پر تہذیبوں نے عروج پایا۔
ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں سچ بولنا بے وقوفی، دیانت داری ناکامی، نرم مزاجی کمزوری، اور حیا قدامت پرستی کہلاتی ہے۔ جھوٹ، دھوکہ، خودغرضی، مفاد پرستی اور نفس پرستی کو کامیابی کی کنجی سمجھا جا رہا ہے۔ ہر دوسرا شخص دوسرے کو نیچا دکھانے، کچلنے، یا استعمال کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ بچوں کو بہترین اسکولز میں داخل تو کروایا جاتا ہے مگر کردار کی تعلیم دینے والا کوئی نہیں۔ والدین فیس تو بھر دیتے ہیں مگر وقت اور تربیت نہیں دے پاتے۔ استاد محض نصاب ختم کرنے کی فکر میں ہیں، جب کہ معاشرہ ظاہری ترقی کے خمار میں اخلاقی دیوالیہ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔
یہ زوال محض اتفاق نہیں بلکہ مسلسل غفلت، بے خبری، اور ترجیحات کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے تعلیم کو ڈگریوں تک محدود کر دیا، عبادات کو رسمی بنا لیا، اور مذہب کو صرف فقہی بحثوں کا میدان سمجھ لیا۔ جبکہ دینِ اسلام کی اصل روح اخلاقیات میں پوشیدہ ہے۔ قرآن مجید ہمیں عدل، سچائی، صبر، معافی اور رحم سکھاتا ہے۔
سیرتِ طیبہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے غلاموں کو آزادی، عورتوں کو عزت، بچوں کو شفقت، اور دشمنوں کو بھی کرامت دی۔ مگر ہم نے اُن اعلیٰ اقدار کو ترک کر کے رسموں، فرقہ بندیوں، اور تعصبات میں پناہ لے لی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بےحس، بداخلاق، اور بےرحم ہوتا جا رہا ہے۔ سچ بولنے والا طنز کا نشانہ بنتا ہے، دیانت دار کو کمزور سمجھا جاتا ہے، اور رحم دل شخص کو “سست” کہا جاتا ہے۔
اس المیے کی ذمہ داری صرف حکومت یا ریاست پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ ایک اجتماعی بحران ہے۔ والدین، اساتذہ، علما، میڈیا، اور ہر باشعور فرد کو اس کی اصلاح میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھروں میں بچوں کو صرف کامیاب انسان نہیں، اچھا انسان بننے کی ترغیب دی جائے۔ اسکولز اور کالجز میں صرف تعلیمی قابلیت نہیں بلکہ اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا جائے۔ علما اپنی تقریروں کو فقط عقائد تک محدود نہ رکھیں، بلکہ کردار سازی اور اخلاقیات پر زور دیں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ منفی کرداروں کو ہیرو نہ بنائے بلکہ معاشرے میں خیر، سچ، اور عدل کو فروغ دے۔
یاد رکھیے! اخلاقیات کا زوال محض انفرادی گراوٹ نہیں بلکہ اجتماعی تباہی کی علامت ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں حیا مر جائے، سچائی مصلحت کی نذر ہو جائے، عدل بکنے لگے، اور رحم دل لوگ کونے میں دھکیل دیے جائیں تو ایسے معاشرے کو صرف زوال اور پچھتاوے کا سامنا رہتا ہے۔ ترقی صرف ٹیکنالوجی سے نہیں آتی، بلکہ اصل ترقی تب ہوتی ہے جب افراد کی سوچ، عمل اور رویّے اخلاقی بنیادوں پر استوار ہوں۔
ہمیں اس المیے کا سنجیدگی سے ادراک کرنا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی احتساب کریں، اپنی ترجیحات کا جائزہ لیں، اور اس عظیم اخلاقی ورثے کی طرف لوٹیں جو کبھی ہمارے معاشرے کا زیور ہوا کرتا تھا۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو ہم ایک ایسی دنیا چھوڑ کر جائیں گے جہاں عمارتیں تو ہوں گی، دل نہیں؛ سڑکیں تو ہوں گی، مگر راہِ ہدایت نہیں؛ لوگ ہوں گے، مگر انسانیت باقی نہ رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International