rki.news
حریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
بلند وبالا پہاڑوں کے دامن میں جہاں، جھرنے، آبشاریں، سیب، آڑو اور خوبانی کے خوش رنگ اور خوش ذایقہ باغات اتنے زیادہ تھے کہ. موسم میں سڑکوں پہ پھلوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ جاتے، کھیتوں کھیلانوں میں شدت کی سردی کے باوجود ہر موسم کا اناج اور سبزی وافر مقدار میں اگتی، لوگوں کو کھانے پینے کی کچھ پریشانی نہ تھی ہر گھر، گھرانے میں بھینس نہ تھی تو بکری ضرور تھی، لوگ اپنے ہاتھوں سے دوھ کر خالص دودھ دوہتے اور مزے دار چاے بنا کر پکوڑوں کے ساتھ بھیگے ہوے موسم سے لطف اندوز ہوتے، گیس کے چولہے اور ہیٹر تو نہ تھے، مٹی کے چولہے میں لکڑیاں جلا کر کھانے بھی پکاے جاتے اور ہاتھ بھی تاپے جاتے، ساتھ ساتھ میں مونگ پھلیوں کو چھیل چھیل کے کھانے کا سرور تو کچھ الگ ہی تھا. عجب زمانے تھے لوگوں کو دولت، حیثیت اور رتبے سے نہیں لوگوں سے پیار تھے.لوگ اس تاک میں نہ رہتے تھے کہ فلاں شخص کتنی. مالیت کے گھر کا مالک ہے اس کے گیراج میں کتنے کروڑوں کی گاڑیاں کھڑی ہیں وہ کس برانڈ کے کپڑے پہنتا ہے اور کس سٹار کے ہوٹل سے کھانا کھاتا ہے، اس کے بچے کس سکول، کالج میں پڑھتے ہیں اور گھر میں ملازمین کی کتنی فوج موجود ہے یہ سادگی کے زمانوں کی بات یے، جب لوگ مروت، محبت اور رکھ رکھاو کی. مٹھاس اور محبت کو خوب سمجھتے تھے اور مل جل کے خوشیاں، غم مناتے تھے یہ اسی زمانے کی تین سگی بہنوں کی داستان ہے، چھینی، مینی اور نینی. یہ تینوں بہنیں ایک مزدور کی بیٹیاں تھیں، جی ہاں مزدور جو ہاتھ سے کام کر کے روزانہ حق حلال کی روٹی کما کر اپنے بچوں کے لیے لاتا ہے جہاں رشتے خلوص اور محبت کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں جہاں ایک فرد کے کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کا مطلب گھر کے ہر فرد کے تکلیف میں مبتلا ہونے کے مترادف تھا، چھینی، مینی اور نینی بھی اسی خلوص اور محبت کی شیرینی میں گندھی ہوی تھیں، صبح سویرے فجر کے وقت نماز قرآن سے فارغ ہو کر سکول جاتیں وآپسی پہ گھر کے کام کاج میں والدہ کا ہاتھ بٹاتیں رات کو آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھتے ہی سب کو سونے کی پڑ جاتی. تینوں بہنیں ایک سال کے وقفے سے برابر ہی تھیں ان کے نکلتے ہوئے قد، لمبے لہراتے سیاہ بال، سفید رنگت اور خوبصورت شکلیں انھیں کسی اور ہی دنیا کا باسی بتاتی تھیں ان کی پرسکون زندگی کو نجانے کس حاسد کی نظر کھا گءی. اچانک اس خوشیوں بھرے کنبے کو کسی حاسد کی ایسی نظر لگی کہ سب کچھ ختم ہو گیا، گھرانہ ہی ملیا میٹ ہو گیا اور چھینی، مینی اور نینی نامی تین بہنیں اہل علاقہ کے لیے صرف اور صرف عبرت کا نشان بن کے رہ گییں، بات صرف اتنی تھی کہ نینی دونوں بڑی بہنوں سے پڑھای میں بہت آگے تھی، وہ ہر امتحان میں ہمیشہ اول آتی اور گولڈ میڈل لاتی، مینی تو نینی کی کامیابیوں پہ دل و جان سے خوش ہوتی ہاں شینی اندر ہی اندر اپنی سگی بہن اور خاندان کی خوشیوں پہ حسد کرتی رہتی،
حسد کی جو ہنڈیا پکاتا رہا
وہ جلتا رہا، بڑ بڑاتا….. رہا
حسد ایک ایسا جان لیوا روگ ہے جو اگر آپ کو ہو جاے تو دیمک کی طرح آپ کو چاٹ لیتا ہے ایسا ہی کچھ اس گھرانے کے ساتھ بھی ہوا، نینی سالانہ امتحانات کے نتیجے میں جونہی اپنی شیلڈ لے کر گھر آی، حاسد شینی نے زہر ملا جام شیریں اپنی معصوم بہن کے ہونٹوں سے لگا دیا نینی نے مشروب کو پہلے اپنی ماں، پھر باپ، پھر مینی اور آخر میں خود پیا اور بٹر بٹر دیکھتی حاسد شینی کچھ بھی نہ کر پای، ہاں جب اس کے پیارے اس کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے گیے اور شینی عمر بھر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو گءی تو شاید اس وقت شینی نے یہ تو ضرور سوچا ہی ہو گا کہ کاش وہ اپنی عادت بد پہ بند باندھ لیتی تو خود بھی جیتی اور اس کے گھر والے بھی.
جلن اور حسد جیسے اوچھے اوصاف ہرے بھرے کھیت کھلیان جلا کر خوشحال زندگیوں کو نگل جاتے ہیں.
Leave a Reply