rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
اکستان میں حکومتی دعووں کے برعکس مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات سمیت ہر چیز کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔چینی بحران بھی عوام کو پریشان کر رہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے چار ماہ کے لیے چینی کی ایکس مل اور پرچون کی قیمتوں کا تعین کر دیا ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق 15 جولائی سے 14 اگست تک چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے اور پرچون قیمت 173 روپے فی کلو ہوگی۔15 اگست سے لے کر 14 ستمبر تک چینی کی ایکس مل قیمت167روپے اور پرچون 175 روپے،15 ستمبر سے لے کر 14 اکتوبر تک ایکس مل قیمت 169 اور پرچون 177روپے ہوگی۔15 اکتوبر کے بعد ایکس مل قیمت 171 روپےاور پرچون میں چینی 179 روپے فی کلو فروخت ہوگی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی عوام کو متعین کردہ قیمت پر چینی حاصل ہو رہی ہے؟حکومت نےتوپرچون کی قیمت متعین کر دی ہے لیکن مارکیٹ میں فی کلو 190 روپے سے لے کر 200 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔مہنگائی کی ستائی ہوئی عوام مہنگے داموں چینی خریدنے پر مجبور ہے،صرف چینی نہیں بلکہ ہر چیز مہنگے داموں خریدی جا رہی ہے۔ایک تو حکومتی طریقہ کار بھی بہت عجیب سا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر بجلی کے بلوں کوسلیبز میں تقسیم کیا جاتا ہے،اسی طرح چینی کی قیمت ہر ماہ دوروپے فی کلوکے حساب سے بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔اعلان کے مطابق اگر چینی فروخت ہوتی تو پھر بھی مہنگی تھی،لیکن حکومتی اعلان سے زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہے جو کہ قابل افسوس ہے۔کچھ دنوں کے بعد چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
چینی کی قلت جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔2024 میں حکومت نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی درخواست قبول کر کےچینی کا زاِئداسٹاک بیرون ملک برآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی اور اس وقت ملز مالکان نےحکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مقامی سطح پر چینی کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔چینی برآمد کر کےبہت سا منافع کما لیا گیا۔اب حکومت نےچینی درآمد کرنے کی اجازت دےدی ہے۔حکومت نے ایک اور مہربانی بھی چینی درآمدکرنےوالوں پہ یہ کی ہے کہ درآمدی سٹاک پر تمام ٹیکسوں سے استثنی عطا کر دیا ہے۔استثنی کی اطلاع آئی ایم ایف کو ہو گئی ہے اورآئی ایم ایف کی طرف سےاس سلسلے میں جواب طلبی بھی کی گئی ہے۔چینی کوپہلے برآمد کیا گیا اور اب درآمد کیا جا رہا ہے۔درآمد اور برآمدکر کے بہت سا منافع کمایا جا رہا ہے۔پاکستان میں اس وقت چینی 200 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے،اگر چینی کو درآمد بھی کر لیا گیا تو پھر بھی اس کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی۔چینی کوسٹاک بھی کر لیا جاتا ہےاور مارکیٹ میں چینی سپلائی کو روک کر مصنوعی قلت پیدا کرنےکےبعد چینی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے لیکن پاکستان میں ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے۔اب شوگر ملز مالکان مہنگے داموں چینی فروخت کر رہے ہیں تو حکومت کوسخت نوٹس لینا چاہیے کہ کیوں وعدہ خلافی کی جا رہی ہے؟جنہوں نے کنٹرول ریٹ پر چینی فروخت کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی،انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
چینی مہنگے داموں فروخت کر کےبھاری منافع کمالیا جاتا ہے لیکن گناکم قیمت پرملز مالکان خریدتے ہیں۔کسان بڑی مشکل سےاور بھاری سرمایہ خرچ کر کے گنے کی فصل کاشت کرتے ہیں لیکن ان کو مناسب معاوضہ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے وہ خسارہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔سستے داموں گنا خرید کرچینی بنا لی جاتی ہے اور بعد میں اس کو مہنگے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ہر کسان پریشان ہےکہ وہ فصل کاشت کرتے وقت بھاری اخراجات برداشت کرتا ہےاور اس کو منافع تو خود نہیں ملتا بلکہ اپنی قیمت بھی نہیں ملتی۔حکومت نے گندم پالیسی کے ذریعے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا دیا ہے،لیکن چینی کے سلسلے میں دوسرا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔گنے کے سلسلے میں بھی کسانوں کی سنی جائےاور دوسری فصلوں کے بارے میں بھی کسانوں کی پریشانی دور کرنے کی ضرورت ہے۔زراعت کا شعبہ بہت زیادہ متاثر ہو چکا ہے،اگر گنے کے فصل کی بھی مناسب قیمتیں کسانوں کو حاصل نہ ہوئیں تو وہ گنے کی فصل کاشت کرنا چھوڑ دیں گے۔کاشتکاری میں ویسے بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ٹریکٹر انڈسٹری ٹریکٹر فروخت کرنےکا مطلوبہ ہدف پورا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،حالانکہ فی ٹریکٹر ایک لاکھ روپےکم بھی کیے گئے ہیں۔اسی طرح گنا یا دوسری فصلات کونظر انداز کیا جاتا رہا تو مستقبل میں خوراک کا بدترین بحران پیدا ہو جائے گا۔
چینی کا بحران پیدا ہو چکا ہےاور اس میں اضافے کا امکان ہے۔حکومت فوری طور پر نوٹس لے، اگر نوٹس نہ لیا گیا تو حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
چینی کی قیمتیں بھی کم کرنی ہوں گی اور دوسری اشیاء کی قیمتوں کوبھی کم کرنا ہوگا۔رپورٹس کے مطابق پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد ہوگی۔امپورٹڈ چینی پر تقریبا 249 روپے فی کلولاگت آئے گی۔حکومت 50 روپے سبسڈی دینے کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے۔ہو سکتا ہےآئی ایم ایف کی وجہ سےاتنی سبسڈی نہ دی جا سکےاور عوام کو 250 روپے سے زیادہ فی کلو چینی خریدنا پڑے۔ٹیکس میں بھی بہت بڑی جھوٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔بہرحال حکومتی کارکردگی مایوس کن جا رہی ہےنیز عوام اور حکومت کے درمیان بھی فاصلے بڑھ رہے ہیں۔بڑھتے فاصلےیقینا حکمرانوں کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہوں گے۔حکمران اپنی مراعات میں کمی کر کےعوام کو ریلیف پہنچائیں،تاکہ بڑھتے فاصلوں کو کم کیا جا سکے۔
Leave a Reply