عامرمُعانؔ
۔
~ میں گیا تھا اس گلی میں ، کئی بیماریاں پہن کر
جی جی
~ اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
اور ایسے کئی گیت میری حالت زار کے آئینہ دار بنے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ آج صبح اٹھتے ہی سر میں درد اور جسم کے گرم محسوس ہونے پر ہم کو احساس ہوا کہ تادیر جاگنا عموما” ڈاکٹر کے پاس پہنچنے کا سبب بنتا ہے ۔ ہمارا یہ تادیر جاگنا کیفیات ہجر میں بالکل نہیں ہے بلکہ کیفیات فیس بک کی وجہ سے ہے ۔ اب ہم نے سوچا کہ ایک عدد پیناڈول اور تھوڑے آرام سے کام چل جائے گا ، کہ ہم ڈاکٹر سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ، اور چاہتے ہیں دوائیوں پر جہاں ‘ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں ‘ لکھا ہے اس جگہ ‘ ڈاکٹر سے دور رہیں’ لکھا ہونا چاہئیے ۔ اکثر ایک دن کی جگہ 7 دن کی دوا کھانی پڑ جاتی ہے ، کیونکہ اینٹی بائیوٹک کا کورس مکمل کرنا لازمی ہے اور ہمیں یہ کورس اسکول کے کورس سے زیادہ مشکل لگتا ہے ۔
لیکن کیا کریں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز تو شائد کوئی سن لے لیکن گھر میں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا ۔ سو یہ گاتے ہوئے کہ
~ لاکھ کرو انکار پڑے تھے کیوں آخر بیمار
سجن جی جانا ہے اک بار تمھیں اب ڈاکٹر کے ہی دوار
دوائی کھانی ہو گی ، دوائی کھانی ہو گی
ہم بادل نخواستہ بحضور ڈاکٹر پیش ہونے کو تیار ہو ہی گئے ۔ اب تو ڈاکٹرز کے کلینک بھی کسی دھابے والے ہوٹل کا روپ لئے ہوئے ہیں، بس کھانے کی جگہ دوائیاں پروسنے کی دیر رہ گئی ہے ۔ مریض کے کلینک میں داخل ہوتے ہی یوں جھپٹتے ہیں کہ جیسے چیل کراچی میں گوشت کے شاپر پر جھپٹی ہے ۔ اب پتہ نہیں ڈاکٹر کا اسٹاف ہم سب کو مریض ہی سمجھتے ہیں یا گوشت کا شاپر ؟؟
پھر پکڑ کر کرسی پر ایسے پھینکتے ہیں جیسے تھانے میں مجرم کو ، اور ساتھ ہی منہ میں تھرمامیٹر ، بازو پر بلڈ پریشر کٹ اور انگلی میں انگوٹھی نہیں جی انگوٹھی نہیں اوکسی میٹر لگا کر آپ کی بولتی بند کر دیتے ہیں اور لاکھ اوں آں اوں آں کر کے آپ سمجھاتے رہیں کہ صرف بخار ہے ، مگر مجال ہے کوئی سن لے۔ پھر آپ کے گھر والوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھ کر پوچھتے ہیں کہیں تو شوگر بھی چیک کر لیں ، کیا پتہ اس کی وجہ سے سر درد کر رہا ہو ۔ اور گھر والے ظالم سماج کی طرح ایسے اجازت دیتے ہیں جیسے قصائی کو بقر عید پر ذبح کی اجازت دی جاتی ہے ۔ لو جی ہمارے تو گھر والوں کی ہاں سے پہلے ہی ایک سوئی ہماری اوئی سے پہلے ہی خون نکال چکی ہے۔
اب ہم پہلے مرحلے سے گزر کر ہاتھ میں پرچی پکڑ کر لائن میں یوں بیٹھے ہیں جیسے پلیٹ فارم پر ٹرین کے انتظار میں مسافر بیٹھے ہوتے ہیں ، کیونکہ ڈاکٹر صاحب ٹرین کی تیزی سے ایک کے بعد ایک مریض کو یوں فارغ کر رہے ہیں جیسے تیزگام اسٹیشن سے نکل رہی ہے ۔
اپنے نمبر پر مسکین صورت بنائے ڈاکٹر کے حضور حاضری لگاتے ہوئے کان اس صدا پر لگے ہوئے ہیں کہ ڈاکٹر کچھ ایسا ویسا نہ کہہ دے کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا دن میں چھا جائے ۔ اور ڈاکٹر کمال مہارت سے دیکھتے ہی فرما رہے ہیں کہ یہ تو وائرل ہے آج کل ، سب کو بخار ہو رہا ہے موسم جو بدل رہا ہے ۔ تو آپ ساتھ موجود صرف میرے میڈیکل اسٹور سے ہی یہ دوائی لے کر ایک ہفتہ استعمال کریں ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے ۔ اب ہم گھر والوں کو گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ یہی تو ہم نے گھر پر بتایا تھا کہ آدھے ڈاکٹر تو سارے پاکستانی خود ہیں ، لیکن گھر والے بھی کمال ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں چلو دل کو تسلی ہو گئی لیکن اب مکمل دوائی کھانی پڑے گی کیونکہ ہمارے پیسے لگے ہیں ۔ جیسے پیسے لگانے کو ہم نے کہا تھا ۔ کم از کم اتنے پیسوں سے ہم من چاہا پیزا دو بار تو کھا ہی سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
چلیں جی ہم کو تو پورا ہفتہ ڈاکٹر کو یاد کر کر کے دوائی کھانی ہے کہ گھر والے بنا دوائی بخشنے والے بھی نہیں ۔ اور نقار خانے میں طوطی کی آواز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
Leave a Reply