rki.news
تحریر: ابوشحمہ انصاری
سعادت گنج، بارہ بنکی
لفظ جب دل کی زمین پر اترتے ہیں تو وہ محض آواز نہیں رہتے، ایک خوشبو بن جاتے ہیں جو دیر تک فضا میں بسی رہتی ہے۔ شاعری کی دنیا میں ایسے ہی خوشبو پھیلانے والوں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر طارق قمر ہے، جس نے لفظوں کو زندگی کی دھڑکن اور احساس کو روشنی عطا کی۔
اترپردیش کا تاریخی اور علمی و ادبی شہر سنبھل اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خطہ صدیوں سے علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کا گہوارہ رہا ہے۔ سنبھل کی علمی فضاؤں نے ایسے بڑے بڑے نام پیدا کیے جنہوں نے اردو ادب کی تہذیبی وراثت کو نئی جہتیں عطا کیں۔ ایسے ہی معتبر ناموں میں ایک نام ڈاکٹر طارق قمر کا ہے۔ طارق قمر نے جدید شاعری کے حوالے سے سنبھل کو ایک عظیم اور نہ مٹنے والی شناخت عطا کی ہے ،ان کی شاعری میں انسانی درد، محبت کی لطافت، رشتوں کی نزاکت، سماج کی تلخ حقیقتیں اور داخلی حساسیت کی یکجائی نمایاں ہے۔ ان کا شعری سفر محض ذاتی اظہار تک محدود نہیں بلکہ عہد کی اجتماعی روح کا ترجمان بھی ہے۔ آغاز میں ہی قاری محسوس کرلیتاہے کہ ڈاکٹر طارق قمر کے کلام میں ایک داخلی روشنی اور فکری وسعت موجود ہے جو ذہن اور دل دونوں کو حرکت دیتی ہے۔
خانوادۂِ سادات کا علمی و ادبی پس منظر ڈاکٹر طارق قمر کی شخصیت کی بنیاد ہے۔ ان کے دادا پیر سید فضل احمد قادری ایک علمی و روحانی شخصیت تھے جنہوں نے سنبھل میں “پیر جیوں والی مسجد” کی تعمیر ، کتاب “سیرت نور” کی تخلیق اور ذکر رسول و آلِ رسول کی محافل و مجالس میں شرکت کے ذریعے علمی و روحانی فضا قائم کی۔ طارق قمر کےوالد سید عقیل احمد عقیل سنبھلی بھی اردو کے ممتاز شاعر و ادیب تھے، جن کے شعری مجموعوں میں علمی گہرائی اور تہذیبی شعور جھلکتا ہے۔ ساتھ ہی طارق قمر کے استاد ڈاکٹر نسیم الظفر بھی جدید شاعری کا معتبر حوالہ ہیں اسی علمی و ادبی ماحول نے ڈاکٹر طارق قمر کو وہ فکری گیرائی اور شعری شائستگی عطا کی جو ان کے کلام میں واضح ہے۔ یہی وراثتی روشنی اور علم کا نور ان کے اشعار میں جھلکتا ہے اور ان کی شاعری کو تہذیبی تسلسل اور فکری اثر کے ساتھ پیش کرتاہے۔
طارق قمر کی وراثت اور اعلیٰٰ تعلیم کے امتزاج نے انہیں سنبھل میں ہی نہیں بلکہ پوری اردو دنیا میں منفرد ومعتبر مقام عطا کیا ہے تعلیم و ادبی خدمات کے حوالے سے بھی ڈاکٹر طارق قمر نے اپنی الگ شناخت قائم کی۔ ڈی لٹ ، پی ایچ ڈی اور تین مضامین میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کرچکے طارق قمر نے لندن سے صحافت کا ایک خصوصی کورس بھی مکمل کیا، بیس سے زیادہ ممالک میں اردو شاعر و ادیب کی حیثیت سے نمائندگی کرچکے ہیں وہ ای ٹی وی اردو میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے اور کئی اہم اداروں میں صحافتی و تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد آج ایک بین الاقوامی ادارے میں کمیونیکیشن کے شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی بصیرت اور صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ تعلیم، تدریس اور صحافت کے اس امتزاج نے ان کی شخصیت کو ہمہ جہت اور متوازن تو بنایا ہی ہے، ساتھ ہی ان کی فکر کو وسعت بھی عطا کی ہے۔
طارق قمر کے اشعار انسانی کرب، سماجی تضادات اور داخلی کشمکش کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں فضا کے مظاہر، انسانی تعلقات کی نزاکت اور محبت کی گہرائی قاری کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
مسجد کی دیوار میں پیپل اُگ آیا ہے
کچھ لوگوں کے ذہن میں جنگل اُگ آیا ہے
دھویں کے ساتھ لہو کی مہک بھی آتی ہے
حویلیوں کے چراغوں میں خون جلتا ہے
اب کی برسات میں مشکل ہے کھنڈر کا بچنا
آنکھ سے دل کی طرف بہنے لگے ہیں آنسو
ان کی شاعری میں انسانی درد، محبت کی لطافت، رشتوں کی نزاکت، سماج کی تلخ حقیقتیں اور داخلی حساسیت کی یکجائی نمایاں ہے۔ ان کا شعری سفر محض ذاتی اظہار تک محدود نہیں بلکہ عہد کی اجتماعی روح کا ترجمان بھی ہے۔ آغاز میں ہی قاری محسوس کرتا ہے کہ ڈاکٹر طارق قمر ڈاکٹر طارق قمر نہ صرف داخلی کرب کو بلکہ انسانی تعلقات کی نزاکت کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جس سے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وقت اور فاصلے کے درمیان محبت کس طرح آزمائش کا سامنا کرتی ہے۔
ابھرتا ڈوبتا سورج ورق پلٹتا رہا
مگر وہ رات کبھی لوٹ کر نہیں آئی
یہاں ڈوبتے اور ابھرتے سورج کی علامت وقت کی بے رحمی اور کھوئے لمحوں کی نہ واپسی کو بیان کرتی ہے۔
اسی داخلی کرب کو ڈاکٹر طارق قمر اپنے کلام میں تلاش اور خوف کے احساس کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
کیسے اپنی تلاش میں نکلوں
مجھ کو ڈر ہے کہ تم نہ کھو جاؤ
اجتماعی زندگی اور بھیڑ میں اپنی شناخت کھو جانے کا درد بھی ان کے کلام میں نمایاں ہے۔
راس آیا نہیں ہجوم مجھے
بھیڑ نے چھین لی شناخت مری
ڈاکٹر طارق قمر اپنے کلام میں سماجی اور تہذیبی نوحے بھی پیش کرتے ہیں۔
دیوار میں جو کیل بھی ٹھوکیں ضرورتاً
چہرہ اترنے لگتا ہے مالک مکان کا
محبت اور تعلق کی نزاکت کو وہ نہایت پرخلوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔
بہتر ہے اپنا زادِ سفر اب سمیٹ لے
لہجہ بدل رہا ہے ترے میزبان کا،
شریف زادے پرانے اصول توڑتے ہیں ،،بوقتِ شام حویلی میں پھول توڑتے ہیں ۔۔
دم توڑتی تہذیب کے اس احساس کے ساتھ ہی یہ زاویہ بھی دیکھئے اور سوچئے کہ طارق قمر اپنی تہذیبی قدروں خاندانی جاہ وحشم اور وراثت کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں ۔۔۔
شریف زادے! نہ کر عشق بنتِ صحرا سے
ہوائے دشت بڑی گرد ساتھ لاتی ہے
اسی نے مجھ سے اجالوں کی بھیک مانگی تھی
یہی ہوا جو چراغوں پہ مسکراتی ہے
مہذب آنسوؤں کی طرح رہنے والی محبت کو ڈاکٹر طارق قمر قاری کے دل میں اتنی جاذبیت کے ساتھ باندھتے ہیں کہ ہر لفظ ایک روشنی بن کر سامنے آتا ہے۔
مہذب آنسوؤں کی طرح رہتے ہو ان آنکھوں میں
کبھی ہم اپنی آنکھوں سے تمہیں گرنے نہیں دیں گے
رشتوں کی حساسیت اور جدائی کے لمحے بھی ان کے کلام میں ایک جمالیاتی امتزاج کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
اکثر وہ جھانک لیتی ہے پلکوں کی اوٹ سے
سہمی ہوئی جو ایک کہانی ہے آنکھ میں
جس سے بچھڑ کر اپنی جان پہ بن آتی ہے
کوئی آخر اتنا اپنا کیوں ہوتا ہے
سماجی تقسیم اور روشنی کے بٹوارے پر ان کی باریک بین نگاہ یہاں جھلکتی ہے۔
بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے
جو بے چراغ تھے وہ بھی چراغ والے ہوئے
یہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طارق قمر محض شاعر نہیں بلکہ اپنے عہد کے نباض ہیں۔ وہ لفظوں میں لمحوں کا نوحہ لکھتے ہیں، احساس کو تجربے کے کرب سے گزار کر پیش کرتے ہیں اور مشاہدے کو اس قوت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ قاری لمحہ بھر کے لیے اپنے وجود کو احساس کے آئینے میں دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر طارق قمر کی شاعری عصری حسّیت، داخلی کرب اور جمالیاتی لطافت کا حسین امتزاج ہے، جو روایت اور جدت دونوں کو یکجا کرتی ہے۔ ان کا کلام ایک طرف انسان کی داخلی دنیا کو روشنی بخشتا ہے اور دوسری طرف سماج کی تلخ حقیقتوں پر بھی بے لاگ تنقید کرتا ہے۔ یہی وہ پہچان ہے جو انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے اور آنے والے کل کے ادبی منظرنامے میں بھی ایک مستند حوالہ بناتی ہے۔ لفظوں کی یہ حرارت اور جمالیاتی تاثیر ڈاکٹر طارق قمر کو نہ صرف ایک شاعر بلکہ ایک عہد کی معتبر آواز بھی بناتی ہے، جو انسانی دل کی دھڑکنوں، سماجی اور داخلی تجربات کو محض کلام میں بیان نہیں کرتی بلکہ قاری کے شعور اور احساس کو جھنجھوڑ کر ایک نئی روشنی فراہم کرتی ہے۔
یہ اشعار ڈاکٹر طارق قمر کے فن کی خاصیت کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں ماضی اور حال کی تلخی، سماجی و انسانی مسائل کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ دھوئیں اور خون کی مہک کے ذریعے وہ قاری کو نہ صرف منظر بلکہ احساس میں بھی غرق کر دیتے ہیں۔
ان کے کلام میں جذبات اور فاصلے کی اذیت کو بھی بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
میں آنکھیں بند کرکے فاصلے کو ختم کرتا ہوں
مگر آنکھوں کے کھلتے ہی زمیں پھر پھیل جاتی ہے
یہاں ڈاکٹر طارق قمر نہ صرف داخلی کرب بلکہ انسانی تعلقات کی نزاکت کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جس سے قاری کو احساس ہوتا ہے کہ وقت اور فاصلے کے درمیان محبت کس طرح آزمائش کا سامنا کرتی ہے۔
ڈوبتے اور ابھرتے سورج کی علامت وقت کی بے رحمی اور کھوئے لمحوں کی نہ واپسی کو بیان کرتی ہے۔
ابھرتا ڈوبتا سورج ورق پلٹتا رہا
مگر وہ رات کبھی لوٹ کر نہیں آئی
اسی داخلی کرب کو ڈاکٹر طارق قمر اپنے کلام میں تلاش اور خوف کے احساس کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
کیسے اپنی تلاش میں نکلوں
مجھ کو ڈر ہے کہ تم نہ کھو جاؤ
اجتماعی زندگی اور بھیڑ میں اپنی شناخت کھو جانے کا درد بھی ان کے کلام میں نمایاں ہے۔
راس آیا نہیں ہجوم مجھے
بھیڑ نے چھین لی شناخت مری
ڈاکٹر طارق قمر اپنے کلام میں سماجی اور تہذیبی نوحے بھی پیش کرتے ہیں۔
دیوار میں جو کیل بھی ٹھوکیں ضرورتاً
چہرہ اترنے لگتا ہے مالک مکان کا
محبت اور تعلق کی نزاکت کو وہ نہایت پرخلوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔
بہتر ہے اپنا زادِ سفر اب سمیٹ لے
لہجہ بدل رہا ہے ترے میزبان کا،
شریف زادے! نہ کر عشق بنتِ صحرا سے
ہوائے دشت بڑی گرد ساتھ لاتی ہے
ان کے اشعار انسانی رشتوں اور احساسات کی گہرائی کو اجاگر کرتے ہیں۔
اسی نے مجھ سے اجالوں کی بھیک مانگی تھی
یہی ہوا جو چراغوں پہ مسکراتی ہے
مہذب آنسوؤں کی طرح رہنے والی محبت کو ڈاکٹر طارق قمر قاری کے دل میں اتنی جاذبیت کے ساتھ باندھتے ہیں کہ ہر لفظ ایک روشنی بن کر سامنے آتا ہے۔
مہذب آنسوؤں کی طرح رہتے ہو ان آنکھوں میں
کبھی ہم اپنی آنکھوں سے تمہیں گرنے نہیں دیں گے
رشتوں کی حساسیت اور جدائی کے لمحے بھی ان کے کلام میں ایک جمالیاتی امتزاج کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں۔
اکثر وہ جھانک لیتی ہے پلکوں کی اوٹ سے
سہمی ہوئی جو ایک کہانی ہے آنکھ میں
جس سے بچھڑ کر اپنی جان پہ بن آتی ہے
کوئی آخر اتنا اپنا کیوں ہوتا ہے
سماجی تقسیم اور روشنی کے بٹوارے پر ان کی باریک بین نگاہ یہاں جھلکتی ہے۔
بڑی حویلی کے تقسیم جب اجالے ہوئے
جو بے چراغ تھے وہ بھی چراغ والے ہوئے
یہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طارق قمر محض شاعر نہیں بلکہ اپنے عہد کے نباض ہیں۔ وہ لفظوں میں لمحوں کا نوحہ لکھتے ہیں، احساس کو تجربے کے کرب سے گزار کر پیش کرتے ہیں اور مشاہدے کو اس قوت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ قاری لمحہ بھر کے لیے اپنے وجود کو آئینے میں دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
Leave a Reply