ڈاکٹر محمد شاہد اختر کو ڈھونڈتے ہوئے اردو انمول رتن ایوارڈ ان کے گھر پہنچ گیا
(پریس نوٹ/ رلیز ) :
معتبر ادیب و معلم ڈاکٹر محمد شاہد اختر صاحب ( سابق صدر شعبہ ہگلی محسن کالج) کی خدمات آفتاب کی روشنی کی طرح روشن ہے۔ انہوں نے اردو اور ملت کی خدمت محض پیشہ وارانہ انداز میں نہیں کی بلکہ ہمہ تن اور ہمہ گوش اس کی بہتری میں لگے رہے۔ نتیجے کے طور پر ہگلی محسن کالج کے شعبۂ اردو میں پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی بنیادیں پڑیں۔ انھوں نے سماج ، قوم اور ملت کے نو نہالوں کی علمی و ادبی دونوں خدمات میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی مناسبت سے ان کی خدمات کے اعتراف میں سینئیر صحافی اور ادب نواز ڈاکٹر مختار احمد فردین اپنی سوسائٹی “آل انڈیا اردو ماس کمیونیکیشنل سوسائٹی فار پیس” کی طرف ڈاکٹر شاہد صاحب کو تہنیت دینے ان کے دولت کدے پر پہنچے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈاکٹر اختر کے دیرینہ دوست معروف شاعر و ادیب عظیم انصاری (سابق آفیسر، وزارت دفاع، حکومت ہند) ، خاکسار محمد شہاب الدین(لوکل جرنلسٹ) اور جواں سال شاعر و ادیب علی شاہد دلکش(معلم ، کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج) کو اپنی محبتوں کے توسط اپنے ڈیلیگیٹس میں شامل ہونے پر راضی کر لیا۔ اُدھر رانی گنج ٹی ڈی بی کالج سے قدآور علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا کو بھی ان کے معتمد و معتقد شاگردِ عزیز وقار احمد کے ساتھ آنے کی رضامندی حاصل کر لی۔ لہذا 27/ اکتوبر 2024 بروز اتوار ظہرانہ تا عشائیہ تیلنی پاڑہ کی سر زمین پر ڈاکٹر شاہد صاحب کے دولت کدے پر مخصوص ادبی نشست منعقد ہوئی۔ عین ظہرانے کے فوراً بعد معاصر علمی و ادبی گفتگو کے مابعد صدرات کی ذمہ داری حاضرین کے اتفاق سے میزبان ڈاکٹر شاہد اختر صاحب کے حصے میں رہی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا کے شانے پر۔ ڈاکٹر صابرہ نے آغازِ مجلس میں ہی اپنے استادِ محترم سے متعلق ، محفل کی نوعیت اور صدرِ محفل کے حوالے سے سیر حاصل تمہیدی گفتگو کی۔ پھر علی شاہد دلکش کو خوب دلکش انداز میں دعوتِ سخن دی۔ دلکش نے بھی محفل کی دلکشی میں برکت کے لیے ترنم کے ساتھ ایک حمدیہ قطعہ اور نعت پاک پڑھ کر سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد غزل سرائی کے دور میں خوش فکر نوجوان وقار احمد نے ایک نظم اور ایک غزل سنا کر خوب داد و تحسین حاصل کی۔ ناظمِ نشست ڈاکٹر صاحبہ کو علی شاہد دلکش نے پرتپاک انداز میں دعوتِ کلام دیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی اپنی ایک مرصع غزل اور اچھی نظم سے محفل کے وقار کو بلند کیا۔ علی شاہد دلکش کو پھر غزل کے لیے پکارا گیا۔ مہمان ذیشان ڈاکٹر فردین نے بھی جم کر ادبی گفتگو شاعرانہ انداز میں کی۔ انھوں نے ڈاکٹر شاہد اختر سے اپنی انتہائی محبت و عقیدت کو بھی والہانہ انداز میں پیش کیا اور لگے ہاتھوں ایک تہنیت نامہ کے ساتھ شال پوشی کی۔ اردو انمول رتن ایوارڈ بھی ڈاکٹر شاہد صاحب کو قبول کرنے کے لیے ملتمس ہوئے۔ اس کے بعد سینئر شاعر مہمانان و میزبان کی فرمائش پر عظیم انصاری نے اپنی دو غزلیں ترنم میں نذرِحاضرین کیا۔ اخیر میں ڈاکٹر شاہد اختر نے صدارتی خطبہ اور یاد رفتگاں تا حال اپنے تاثرات کو مدبرانہ انداز میں رکھا۔ مزید اصرار پر اپنی دو غزلوں کے منتخب اشعار بھی سنائے۔ چائے کے وقفے اور مغرب کے بعد ایک مذاکرات برننگ ٹاپک (موجودہ طالب علموں میں خودکشی کا رجحان) لوکل نیوز چینلز “دی اسٹنگ نیوز” کے زیرِ اہتمام لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا۔ یکے بعد دیگرے ڈاکٹر حنا، ڈاکٹر شاہد اختر اور عظیم انصاری نے اپنے تاثرات مع مشورے کی شکل میں بائیٹز دیئے۔ عشاء کی آذان ہوتے ہی کامیاب اور یادگار محفل اپنے انجام کو پہنچی۔
رپورٹ: محمد شہاب الدین
Leave a Reply