ڈاکٹر ارشد رضوی
ڈاکٹر پونم نورین کی شاعری محبت کی شاعری ھے۔ ایسا دیکھنے میں أیا ھے کہ اس موضوع پر شاعری مشکل ترین بھی ھے اور أسان بھی لیکن جب یہ احساس پونم کے ھاں باتیں کرتا نظر أتا ھے یہ مجسم عشق بن جاتا ھے۔ یہ ایسا احساس ھے جو صرف ان شعرا سے ھمکلام ھوتا ھے جو کسی اندرون کے کھلے زخم سے جڑا ھو ۔ یہ کھلے ھوے گلاب سی صورت لیے کھیں اندر کھلا ھمکلام ھو یا پھر أنکھوں میں رتجگوں سا پپوٹوں پر رکھا ھو۔ ایسا جیسے نیند سے بیزار صاف نظر أتا ھو لیکن کچھ مختلف جیسے دل چرانے کے بعد کی خاموشی ھو اور کچھ نہ کھتے ھوۓ بھی سرگوشیاں کرتی ھو ۔ میں نے ان سرگوشیوں کو سنا ھے یہ لفظوں سے جھانک رھی ھیں۔ اشعار کا ملبوس اوڑھے بے پناہ واضح ھیں جیسے حسن عشق کی وحشت کو سمیٹے اتنا مطمعن ھو جیسے کا ٸنات ھو جو دیکھنے میں لاکھ خاموش نظر أتی ھو لیکن محسوس ھونے میں اتنی پراسرار جیسے کوٸ انجان سا خیال شام کی اداسی میں در أے اور دیر تک بارش کی طرح برستا رھے
یہ برستی بارش سی شاعری ھے ۔ اور شاعرہ کے ساتھ ساتھ رھتی ھے جیسے صفحوں پر لفظ لکھے ھیں کہ جھا ں تنھاٸ تھی وھاں شاعری ھمکلام ھے اور دل چراۓ بیٹھی ھے ایک زعم کے ساتھ کہ دل جسے جگہ نہ ملتی تھی اب أرام سے ھے کہ جھاں ھے وھاں مسیحاٸ کے ھاتھ ھر مرض کی دوا ھیں۔ ایسی بے پناہ أپناییت
قسمت والوں کے حصے میں ھی أتی ھے
ڈاکٹر پونم نورین یوں بھی مسیحایٸت کے شعبہ سے منسلک ھیں لیکن شاعری کا جادو بھی اپنے أپ میں سر چڑھ کر بولتا ھے لگتا ھے دریا کی روانی ھے اور بھے جاتی ھے ۔ اشعار جو کھنا چاھتے ھیں کھتے ھیں کہ ان کی شاعرہ نے انھیں بولنا سیکھایا ھے ورنہ تو وہ گونگے چھروں کی طرح اتنے خاموش تھے کہ حبس پھیلتا جاتا تھا اب وہ احساسات کی بارش میں نھاتے ھیں اور خوش ھیں جیسے انھیں نٸ زندگی نے اپنا لیا ھو اور جھا ں تک شاعرہ کا زکر ھے وھاں ایک چھرہ ھے جسپر أنکھیں قبضہ کیۓ ھوے ھیں اور بھت اداس ھیں کہ ایسی اداسی تخلیقی بھاو کے ساتھ بھتی ھوٸ ھمارے چھروں پر أن بیٹھتی ھے اور پیچھا نھیں چھوڑتی
Leave a Reply