Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ڈلیوری نارمل ہی کروانی ہے

Articles , Snippets , / Wednesday, April 16th, 2025

rki.news

نسل انسانی کی بقا کے لیے پیدایش کے جان لیوا عمل کی ذمہ داری صنف نازک کے ناتواں کندھوں پہ ڈال دی اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ پاک کسی بھی انسان پہ اس کی اوقات سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا. .
بوجھ کندھوں پہ میرے ڈالے گئے
ماں کے رتبے پہ بھی بٹھایا گیا
تو مت سمجھیے گا کہ عورتیں نازک ہوتی ہیں،مت سمجھیے گا عورتیں بزدل ہوتی ہیں، مت سمجھیے گا عورتیں ڈرپوک ہوتی ہیں، شیروں کو جنم دینے والی بزدل کیسے ہو سکتی ہے اور اگر شیر کی جگہ کسی عام انسان کو بھی جنم دے پھر بھی عورت بہادری میں اپنی مثال آپ ہے. کیونکہ اس ایک انسان کو اس دنیا میں لانے کے لیے وہ جس توڑ پھوڑ اور اذیت کا شکار ہوتی ہے اس کا بیان الفاظ میں کرنا تقریباً ناممکن ہے. ہاں مختصر الفاظ میں ایسے ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کا رتبہ باپ سے بلند اسی مشقت کو سہنے پہ زیادہ ہے جو وہ بچے کو نو ماہ اپنے پیٹ میں پروان چڑھاتی ہے اور پھر اسے دودھ پلاتی ہے جب تک بچہ اچھی طرح ہوش نہیں سمبھال لیتا ماں کی جان پہ ہی بنی رہتی ہے.اور ہمارے انڈو پاک کے کلچر میں ایک بات بڑی عجیب سی دیکھنے میں آی کہ اگر بچہ ذہین اور لایق فایق ہو جاے تو اس کا سارا کریڈٹ ابا حضور کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر بچہ تھوڑا اوسط درجے کا ہو یا پھر پڑھای لکھائی میں کمزوری کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں ذرا سا بھی پیچھے رہ جاے تو ماں کی بدبختی شروع ہو جاتی ہے کہ لو جی ماں نے تو بچے کی تربیت ہی نہ کی.
خیر ہم جس سماج کے باسی ہیں یہاں gender discrimination کی کھیل گھر ہی سے شروع ہو جاتی ہے. بیٹی کی پیدائش پہ دایی کے ساتھ ساتھ بیٹی کو جنم دینے والی کے مقدر پہ بھی خواہ. مخواہ کالک پھیر دی جاتی ہے. کھانے پینے سے کھلونوں اور کھلونوں سے پڑھای لکھای تک ہر میدان میں بنت حوا کو رگیدنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنوایا جاتا. سوہنی بس نام ہی کی سوہنی تھی گوری چٹی، لمبی، پشت سے نیچے تک آتے ہوے اس کے گھنگھور گھٹاوں جیسے کالے بال، وہ کسی شاعر کا خیال یا کسی منچلے کا خواب تو ہو سکتی تھی مگر اہل محلہ اور تمام رشتہ دار اسے منحوس ہی کہتے تھے، اسے منحوس اس لیے کہتے تھے کہ اس کی پیدائش پہ دردیں لے لے کر اس کی ماں اتنی مضروب ہو گءی اتنی بے بس ہو گءی کہ بیٹی کو تو دنیا میں تولے آی مگر خود جان کی بازی ہار گءی. ہاے جانے کب تک مظلوم، غربت اور خون کی کمی کی شکار خواتین مناسب طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی بنا پہ یونہی جان کی بازی ہارتی رہیں گی، یونہی اناڑی ہیلتھ ورکرز کے رحم و کرم پہ ان مظلوم خواتین پہ جاری اس عہد
بربریت کا کب خاتمہ ہو گا. میرے کانوں میں دردزہ سے تڑپتی ہوی خواتین کی آوازیں ہیں ان کے android pelvis بچے کی نارمل پیدائش سے قاصر ہیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں، محلہ دار سیانیاں اور دایہ بضد ہیں کہ لاد ےلادے لادے مطلب زور لگا دے تاکہ بچہ چھلانگ مار کے باہر آ جاے اور سب کی خلاصی ہو جاے مگر یہ لادے لادے والا نسخہ کبھی کبھی دغا بھی دے جاتا ہے. جب بچے کی پوزیشن ہی غیر مناسب ہو یا بچہ دردوں کے دوران پیٹ میں ہی پاخانہ کردے، یا پھر بچے کی دھڑکن دردزہ کے دوران کم. زیادہ ہو جاے، یا بچے کی گردن کے گرد آول ناڑو ہو یا عورت کو دردزہ شروع ہی نہ ہو، عورت کو کوی میڈکل مسءلہ ہو، تو ایسے حالات میں بچے کی پیدائش بڑے آپریشن سے کروانا مسءلے کا بہترین حل ہے نہ کہ لادے لادے کی جاہلانہ تکرار کرتے ہوے زچہ و بچہ دونوں کی جان سے کھیل جانے والے مکروہ فعل کا حصہ بن کے دونوں زندگیوں کو ہاتھ سے گنوا دینا.
مگر نہ تو اتنی تعداد میں ڈاکٹر میسر ہیں نہ اتنے ہسپتال ہاں دردیں لینے والی عوام بہت زیادہ ہے جو اپنی غربت اور جہالت کی وجہ سے ان اناڑی اور نسبتاً سستے عطایوں کے ہتھے چڑھ کر ایک نہیں دو دو جانیں گنوا کے خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتے ہیں.
تو سوہنی بچ گءی یہ لادے لادے کی بے وزن تکرار اس کی ماں کو کھا گءی ابے نے فوراً پانچ بچوں کی بیوہ ماں سے نکاح کے دو بول پڑھواے اور سوہنی کے سر پہ سوتیلی ماں نامی عذاب کو مسلط کر دیا. دھکے کھا کے، محرومیوں کے عذاب سے گزر کر جونہی سوہنی چودہ برس کی ہوئی اسے ایک پچاس سالہ بڈھے کے ساتھ نکاح نامی بندھن میں باندھ کر گھر نکالا دے دیا گیا.
شادی کے ٹھیک نو مہینے بعد جب پورے وقت کی سوہنی پہ دردزہ کا عذاب نازل ہو ا تو اس کے پاس سواے اس کی بوڑھی اور بیمار ساس کے کوی تیسری عورت نہ تھی، مرد کھیتی باڑی میں مصروف اور چودہ سالہ بچی دردزہ سہہ سہہ کے پہلے ادھ موی ہوی اور آخر کار سولہ گھنٹے دردزہ کی چومکھی لڑائی لڑتے لڑتے جان بلب ہو گءی مرا ہوا پورے وقتوں کابچہ آدھا ماں کے پیٹ میں اور آدھا باہر ساری دنیا کے ان قابل لوگوں کا منہ چڑانے کے لیے کافی تھا جو انسانی جان سے کھیلنے کا کوی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اکیسویں صدی کے پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی اس بات پہ بضد ہیں کہ بچے کی پیدائش کا طریقہ کار نارمل ڈلیوری ہی ہو گا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International