تازہ ترین / Latest
  Sunday, December 22nd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“ژوند سفر سفر”

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, November 27th, 2024

کتاب کے پہلے حصے میں مصنف نے اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کیا ہے تعلیم و تعلم کا ذکر خاص ہے اور خاص طور پر اپنی زوجہ محترمہ اور بچوں کے بارے تفصیل سے لکھا ہے اور اسکے ساتھ وادئ تیرہ میں لوگ کیسی زندگی گزارتے ہیں؟ آمدن کا ذریعہ کیا ہے؟ تعلیم کیسی ہے؟ وغیرہ وغیرہ سب کچھ مفصل درج ہے جوکہ نہایت ہی مفید اور معلوماتی ابواب ہیں،

تعلیم کے حوالے سے اور پشتو زبان بارے فیروز خان آفریدی لکھتا ہے کہ “قیام پاکستان کے بعد ایک مربوط سازش کے تحت پشتو زبان کو تعلیمی نصاب سے بے دخل کیا گیاپشتونوں کے وسائل پر قبضہ کیا گیا پشتونوں کے خطے پر پراکسی وار مسلط کیا گیا پشتونوں کے سرزمین کو خون سے نہلایا گیا انکے آعلیٰ قیادت کو قتل کیا گیا انکے پروفائیلنگ کو اس انداز سے بنایا کہ انکی شناخت کو مسخ کیا گیا عوامی دوست اور آمن کے داعیوں کو دھشت گرد بنا کر پیش کیا گیا اس وجہ سے پشتو زبان ترقی نہ کرسکی لیکن اسکے باوجود بھی ادب کے متوالوں نے اس زبان کی ترویج و ترقی میں اتنی محنت کی کہ پشتو اب باقاعدہ ایک ادبی زبان بن چکی ہے”

اس سے اوپر پیرائے میں وہ لکھتا ہے کہ:

” اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تعلیم تو اب عام ہو چکا ہے تو پھر پشتون کیوں دوسرے قوموں سے پیچھے ہیں؟”

جواب پہلے اس لئے لکھا کہ اس میں وضاحتی بیان تھا اور سوال بعد میں اس لئے لکھنا پڑا کہ سمجھنے میں آسانی ہو لیکن اس سوال کی وضاحت صاحب کتاب نے غلط دیا ہے اگر حقیقت کے تلخ سچائیوں میں آنکھیں ڈال کر اس سوال کا جواب دیا جائے تو میرے خیال میں اسکا جواب کچھ یوں ہونا چاہیئے:

” دراصل پشتو کے ادیب صرف اپنے آپ تک محدود ہے ایک ادیب نے بھی آج تک سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ہے اگر کوشش کی ہے تو صرف اس حد تک کی ہے کہ اس کچھ روپیہ اور نام کما سکیں باقی پشتو کے ایک ادیب نے بھی پشتو بطور سبجیکٹ اپنے بچوں کیلئے نہیں چنا ہے بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے بچوں کو پشتو کی تعلیم نہیں دی ہے بہت کم شعراء ہونگے جنکے بچوں نے ادب کی ترویج و ترقی میں اپنے باپ کیساتھ شانہ بشانہ کام کیا ہو کوئی بھی زبان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کلی طور پر اس زبان و ادب کو اپنایا نہ گیا ہو”

اردو جب رائج ہوئی تو اس وقت جن شعراء نے بھی اسکی ترویج و ترقی کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروی کیئے تو فارسی زبان کو ایسا اگنور کیا کہ جس طرح پشتون اپنی مادری زبان اگنور کرکے انگلیسی زبان سیکھتا ہے جب کوئی قوم اپنی زبان اپنی ثقافت اور اپنی شناخت پر شرم محسوس کریں تو اس سے بڑھ کر اور غلامی کیا ہوگی؟؟، آج اردو سو سال کے بعد کہاں کھڑی ہے اور پانچ ہزار سال سے رائج ہونے والی زبان کہاں کھڑی ہے؟؟؟؟؟

کتاب کا دوسرا حصہ نہایت ہی دلچسپ ہے یہ حصہ میں نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے پڑھی کیونکہ اس حصے میں زیادہ تر وہ ایشوز ہیں جنکا ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن توجہ نہیں دیتے یا توجہ کے قابل نہیں سمجھتے، اس حصے میں مصنف نے اپنے عادات و اطوار، اخلاقیات، معاملات اور سفر کی صعوبتیں بیان کیں ہیں، اس حصے کو پڑھنے کے بعد ہر شاعر، ہر ادیب اور دیار غیر میں مقیم ہر مزدور اسے دل سے محسوس کرے گا کیونکہ اس میں مصنف کے محفلوں، مشقتوں اور مشاہدات کا ذکر ہے،

لیکن ایک بات جو مجھے بلکل پسند نہیں آئی لیکن مصنف نے اس بات کو نہایت ہی اہمیت دی ہوئی ہے اور مجھے ایسا لگا کہ جیسا کہ مصنف نہایت خودپسند انسان ہے اسے اپنے آپ سے بہت محبت ہے وہ خود کو بہت خوبصورت تصور کرتا ہے جیسا کہ جب اس انڈین نژاد کے بارے میں اپنے تاثرات کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے ” جب وہ پہلی دفعہ مجھ سے ملی تھی تو میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا اور میری قمیض نہیں تھی جب دروازہ کھٹکھٹایا تو میں بغیر قمیض کے باہر نکلا اسکا ڈرائیور اقبال نامی شخص کا پوچھ رہا تھا اور جب ہماری جان پہچان بڑھی تو اس انڈین نژاد نے کہا کہ ” تمہارا جسامت دیکھ کر میں تم سے متاثر ہوئی” اسکے علاوہ بھی جگہ جگہ پر وہ ” میں خوبصورت تھا” کا صیغہ استعمال کرتا رہا ہے جوکہ ایک مرد کو زیب نہیں دیتا عورت اگر خود کو خوبصورت کہے تو کوئی بات نہیں مگر مرد کا اس طرح خود کو خوبصورت کہنا شان کے خلاف ہے لیکن اگر اس تصویر کا دوسرا رُخ دیکھا جائے تو یہ رُخ نہایت ہی سچا کھرا اور بیباک نظر آئیگا کیونکہ جو کچھ مصنف اپنے بارے میں سوچتا تھا وہ صفحہ قرطاس پر بکھیرتا گیا اور یہ آپ بیتی کی وصف بھی ہے کہ ” میں جو کچھ بھی لکھوں گا سچ لکھوں گا سچ کے سوا کچھ نہیں لکھوں گا”

علاوہ ازیں ایک اور چیز جو مجھے بلکل بھی پسند نہیں آئی وہ یہ کہ مصنف نہایت ہی سنجیدگی سے جب اپنے گریبان میں جھانک کر لکھنا شروع کردیتا ہے تو اپنی شاعری اور اپنے تحاریر کے بارے میں نہایت ہی عجز و انکساری سے پیش آتا ہے اکثر اوقات وہ ہر شاعر کو اپنے سے بہتر سمجھتا ہے بلکہ وہ اشاریوں کنایوں میں قاری کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ” میں شاعر اور ادیب نہیں بلکہ حالات نے بنادیا ہے” حالانکہ ادیب تو خیر بن جاتا ہے مگر شاعر کوئی بنتا نہیں بلکہ پیدائشی ہوتا ہے مثلاً جب اپنا موازنہ وہ حسین احمد صادق صاحب سے کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ” اس وقت حسین صادق بہت پختہ شاعر تھا جبکہ ہم تازہ تازہ اور کچے شاعر تھے” یہ شاعر تازہ تازہ اور کچا کیسے ہوتا ہے؟ شاعر تو شاعر ہوتا ہے ہر شاعر کا پہلا دور عشق و عاشقی کا ہوتا ہے تو اس دور کو ٹوٹی پھوٹی شاعری کہنا میرے خیال میں بلکل بھی درست نہیں، لیکن مزے کی بات یہ ہے وہ جو خود کو سمجھتا تھا ویسے ہی خود کو پیش کردیا نا تو مبالغہ سے کام لیا اور نا ہی تصنع و بناؤت سے جوکہ بہترین طرز عمل ہے،

ایک بات مصنف کی میرے دل کو چھو گئی لکھتا ہے کہ ” جب کوئی یہاں (قطر) محنت مزدوری کیلئے آتا ہے تو عورتوں کی لت میں پڑھ جاتے ہیں فلپائینوں یا بازاری عورتوں کے آگے پیچھے چکر لگاتے ہیں انکے پیچھے پڑ جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان چیزوں سے بچایا ہے”، یہ بات نہایت ہی قابل غور ہے خاص طور پر اُن لوگوں کیلئے جو دیار غیر میں ذلیل وخوار ہوتے ہیں دن رات محنت مزدوری کرتے ہیں اور تنخواہ لیتے ہی ان پر اڑا دیتے ہیں یہ ایک عام سی بات ہے لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو اس میں کامیابی اور ناکامی کے سارے گُر پوشیدہ ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

اب جس کے جی میں آئے وہ ہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا ـــــــــــ!!

مصنف جب دوستوں کا ذکر کرتے ہیں تو نہایت ہی جذباتی سا ہوجاتا ہے اپنے محفلوں میں وہ زندگی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں وہ رنگ جو انھوں نے کینوس پر بکھیرے تھے انھی رنگوں کو وہ چھونے کی کوشش کرتا ہے وہ رنگ جس سے انھوں نے عرب کے خشک ریگزاروں کو گلستان و بوستان بنایا تھا وہ رنگ جس سے انھوں نے سارے پشتونوں کو ایک لڑی میں پرویا تھا وہ رنگ جس سے انھوں نے مشقت بھری زندگی کو بادل پھول اور خوشبو میں تبدیل کیا تھا وہ رنگ جس سے انھوں نے مردہ اذھان کو حساسیت کے سانچے میں ڈالا تھا اُن رنگوں کو وہ پھر سے چھیڑنے کی جب جسارت کرتا ہے تو لازمی بات ہے کہ جذباتیت ضرور غالب آئیگی اور یہ تو آدمی کی فطرت ہے کہ وہ جب اچھے لمحات کو یاد کرتا ہے تو چند آنسو بغاوت پر اتر ہی آتے ہیں
اس حصے میں دوستوں کی مستیاں، کام کی مشقتیں اور ساتھ ساتھ ادب کی آبیاری بارے بہت کچھ ہے شاعر کیا خوب کہتا ہے کہ:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
یکطرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
کہی پڑھا تھا کہ جب کسی ادیب کا کوئی اقتباس تمہارے ذہن میں چھاپ چھوڑ جائے تو سمجھو کہ وہ اقتباس اس ادیب کی ساری زندگی کا نچوڑ ہے یہ واقعات پڑھتے ہوئے مجھے اپنے دوستوں کیساتھ گزرے ہوئے لمحات یاد آئیں اور پل بھر میں ایسا لگا جیسا کہ یہ ہمارے محفلوں کو یاد کرکے دوہرا رہا ہے کیونکہ ایک وقت تھا جب ہم نے بھی لاچی میں ” خپل یاران ” کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی تھی اور یہ شاعر کی فطرت ہی ہوتی ہے وہ رنگین مزاج ہوگا آزاد خیال ہوگا اور یاروں کا یار ہوگا، مصنف نے جو بھی باتیں اپنی محفلوں کی لکھی ہے نہایت ہی فرحت بخش اور زندگی سے بھرپور ہے کیونکہ یہ سب ہم نے بھی دیکھا ہے اگر کوئی ایسا شخص جو مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں ہو یقیناً اور بلامبالغہ یہ کتاب انکے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی کیونکہ پڑھنتے ہوئے مجھے یہ احساس شدت سے ستاتا رہا کہ ” زندگی ایک بار ملتی ہے اگر اسے جینا ہے تو اسی طرح جیو کھل کے، ہنس کے، دوسروں کے کام آکے، کیونکہ یہ ہی زندگی کی حقیقت ہے”

مصنف کی ایک دوسری خوبی جوکہ ہر صفحے پر وہ بیان کرتا ہے کہ ” میں ایسا انسان ہوں کہ ہر کسی کے ساتھ ہنس کے ملتا ہوں گپ شپ لگاتا ہوں اور ہر کسی کی حوصلہ آفزائی کرتا ہوں” اس بات کا گواہ تو میں بھی ہوں تقریبا بارہ تیرہ سالوں سے مصنف کیساتھ میرا فیس بک پر رابطہ رہا ہے اور ان بارہ تیرہ سالوں میں ایک بار بھی انکے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی ہے بلکہ جب بھی دیکھا ہے تو مسکرا کے اور گپ شپ کے موڈ میں دیکھا ہے سیاسی لحاظ سے آفریدی صاحب پی ٹی آئی سے منسلک ہے اور میں جمیعت علماء اسلام سے جوکہ آگ اور پانی ہے مگر مجال ہے کہ کبھی انھوں نے برا بھلا کہا ہو تنقید بھی کی ہے تو دوستی کا لحاظ رکھا ہے تکبر غرور تو ان میں نام کا بھی نہیں ہے اتنا بڑا ادیب و شاعر ہوکے بھی انھوں نے کبھی کسی کو چھوٹا نہیں سمجھا ہے بلکہ ہر انسان کو انسان کی نظر سے دیکھا ہے یہی وہ خوبی ہے جو انھیں باقی ادیبوں سے ممتاز بنا دیتا ہے،

مجموعی طور پر ” ژوند سفر سفر” نہایت ہی بہترین اور عمدہ آپ بیتی ہے اس آپ بیتی میں زندگی کے ہر پڑاؤ سے گزرنے کے واقعات ہے کبھی کبھی یہ واقعات دلخراشی کے سارے لوازمات سے پر ملیں گے، کبھی کبھی یہ واقعات آپ کو موٹیویٹ کرینگے، کبھی کبھی یہ واقعات آپ کو بہترین تفریحی موڈ کے سبب بنیں گے اور کبھی کبھی کچھ واقعات حالات کی ساری سنگینیاں لئے تمہارے لئے آنسو بہانے کا ذریعہ ملے گا میں نے تو اس آپ بیتی کو دل سے محسوس کیا اور بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوا بلکہ مجھے تو بعض اوقات مصنف نے راہ دکھانے کی کوشش بھی کی ہے خاص طور پر جب قطر میں روزگار کی تلاش میں وہ مارا مارا پھیرتا ہے تو نان کی دوکان سے اپنی کمائی کی شروعات کرتا ہے لیکن سخت محنت انھیں کہاں پہنچاتا ہے یہ آپ کو پڑھ کر ہی پتا چلے گا،

آخر میں ایک سوال تمام بڑے ادیبوں سے جنہوں نے پوری زندگی ادب کو دی ہے اور چلتے پھرتے لائیبریریاں ہیں،

” آفریدی صاحب کہتا ہے کہ میرے سارے بچے نہایت ہی تابعدار ہیں صوم و صلوات کے پابند ہے اپنا کام بہترین انداز میں کرتے ہیں چور نہیں ڈاکو نہیں جواری نہیں نشئی نہیں ہیں اپنے ماں باپ کا احترام کرتے ہیں لیکن انکا ایک بھی بیٹا ایسا نہیں جو باپ کے نقش قدم پر چل کر ادب کیلئے کام کریں اور انھوں نے جو لائیبریری بنائی ہے جوکہ برسوں کی ریاضت ہے انکو اپنے لئے سرمایہ حیات اور مشعل راہ بنائے بلکہ یہ تو سرعام کہتے ہیں میرے بیٹوں میں ایک بھی ایسا نہیں جو ادب سے لگاؤ رکھتا ہو بلکہ پوتے پوتوں میں بھی ایسا کوئی نہیں ہے جو میرے ان کتابوں سے فائدہ اٹھا سکیں بلکہ صرف ایک ہی نواسی ہے جنہیں تھوڑا بہت ادب سے لگاؤ ہے ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی بڑے ادیب یا شاعر کا بیٹا ادب سے بیزار ہوتا ہے؟ ؟؟؟”

والسلام ♥

*خبطی*


One response to ““ژوند سفر سفر””

  1. feroz khan says:

    بہت شکریہ جناب عالی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International