rki.news
تحریر: احسن انصاری
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا دارومدار پانی پر ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا نہ صرف کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں بلکہ صنعتوں، توانائی کے ذرائع اور گھریلو ضروریات کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان پانی کی کمی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے تاکہ بارشوں اور برف پگھلنے سے آنے والا پانی محفوظ کیا جا سکے۔ انہی میں سے سب سے زیادہ زیرِ بحث منصوبہ کالا باغ ڈیم ہے جو کئی دہائیوں سے اختلافات کی نذر ہے۔
کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پہلی بار 1950 کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مقام کا انتخاب ماہرینِ انجینئرنگ اور واپڈا نے کیا تھا کیونکہ کالا باغ کے قریب دریائے سندھ کی چوڑائی اور گہرائی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے موزوں تھی۔ 1984 میں اس منصوبے کو باضابطہ طور پر حکومتِ پاکستان نے منظور کیا۔ اس ڈیم کی متوقع گنجائش چھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ڈیم دریائی کٹاؤ کو روکنے، سیلابی پانی کو قابو میں رکھنے اور زراعت کے لیے مستقل پانی فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔
اس منصوبے کی افادیت پر ماہرین ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق کالا باغ ڈیم پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا ہوگی بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کیا جا سکے گا۔ ہر سال ملک کو سیلاب سے اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اس ڈیم کی تعمیر ان نقصانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ صنعتی اور زرعی ترقی کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا کرے گا اور پاکستان کو درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے شدید موسمی تغیرات کا سامنا کیا ہے۔ کبھی غیر معمولی بارشیں اور تباہ کن سیلاب آتے ہیں تو کبھی خشک سالی اور پانی کی کمی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے مستقبل میں دریاؤں کے بہاؤ میں شدید غیر توازن پیدا ہوگا۔ اس پس منظر میں کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ موسمی شدت کے اثرات کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ یہ ڈیم خشک سالی کے دوران پانی فراہم کر سکتا ہے اور بارشوں یا گلیشیئر پگھلنے سے آنے والے طوفانی ریلوں کو روکنے میں معاون ہوگا۔ یوں یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بھی ایک اہم دفاعی حصار ہے۔
اگرچہ کالا باغ ڈیم کے فوائد پر ماہرین اور مختلف حلقے متفق ہیں، مگر اس کی تعمیر ہمیشہ سیاسی اختلافات کا شکار رہی ہے۔ سب سے پہلے خیبر پختونخوا کو یہ خدشہ ہے کہ ڈیم بننے سے نوشہرہ اور اس کے اطراف کے علاقے زیرِ آب آ جائیں گے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی زمینوں اور گھروں سے محروم ہونا پڑے گا۔ سندھ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کے بعد صوبے کو پانی کی تقسیم میں نقصان ہوگا اور دریائے سندھ کا زیادہ حصہ اپر پنجاب اور دیگر علاقوں کو چلا جائے گا۔ بلوچستان کو یہ شکایت ہے کہ پہلے سے موجود منصوبوں میں بھی اسے اس کا حصہ نہیں دیا جاتا، لہٰذا کالا باغ ڈیم سے بھی اسے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں پانی کی تقسیم ہمیشہ سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔ 1991 کے آبی معاہدے کے باوجود صوبوں کے درمیان شکوک و شبہات ختم نہیں ہو سکے۔ کالا باغ ڈیم کو بعض حلقے پنجاب کی بالادستی کا ایک مظہر سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو سیاسی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ہر دور کی حکومت نے اس پر بات تو کی مگر عملی اقدامات کرنے سے گریز کیا۔ وجہ یہ تھی کہ کسی بھی حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر وہ کالا باغ ڈیم بنانے کی کوشش کرے گی تو اسے صوبائی سطح پر سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یوں یہ منصوبہ ہمیشہ سے فائلوں میں دبا رہا اور قومی ضرورت کے باوجود عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔
انجینئرنگ اور آبی وسائل کے ماہرین مسلسل اس منصوبے کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم تکنیکی اعتبار سے محفوظ اور قابلِ عمل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نوشہرہ اور دیگر متاثرہ علاقوں کو بچایا جا سکتا ہے جبکہ سندھ کے خدشات کو بہتر انتظامی ڈھانچے اور آبی معاہدوں کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت پانی کی فی کس دستیابی کے حوالے سے خطے کے سب سے کمزور ممالک میں شامل ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق اگر پاکستان نے فوری طور پر بڑے آبی ذخائر نہ بنائے تو آنے والے برسوں میں یہ ملک پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔ توانائی بحران پہلے ہی معیشت پر بوجھ ڈال رہا ہے اور مہنگی بجلی کی وجہ سے صنعت اور زراعت دونوں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسے حالات میں کالا باغ ڈیم کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی اعتماد کی کمی ہے۔ اگر صوبوں کو اعتماد میں لیا جائے، ایک شفاف اور مؤثر آبی پالیسی بنائی جائے اور عوام کو اس منصوبے کے حقیقی فوائد سے آگاہ کیا جائے تو اس قومی منصوبے پر اتفاقِ رائے ممکن ہے۔ یہ منصوبہ کسی ایک صوبے کے نہیں بلکہ پورے ملک کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے، لہٰذا اس پر اختلافات کی بجائے اتحاد کی ضرورت ہے۔
کالا باغ ڈیم کی کہانی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو ملک کو توانائی بحران اور پانی کی قلت سے بچا سکتا ہے، وہ صرف صوبائی اختلافات اور سیاسی مفادات کے باعث تعطل کا شکار رہا۔ اگر آج ہم نے اس مسئلے کو دانشمندی اور قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے حل نہ کیا تو آنے والی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ قومی قیادت ذاتی اور صوبائی مفادات سے اوپر اٹھ کر پاکستان کے مستقبل کے لیے فیصلے کرے۔ کالا باغ ڈیم صرف ایک ڈیم نہیں بلکہ پاکستان کے بقا کا منصوبہ ہے۔
Leave a Reply