Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کالا کوٹ اور پتھر کا سیٹ

Articles , Snippets , / Thursday, December 18th, 2025

rki.news

قرآن پاک میں ہے کہ اولاد آزمائش ہے غور فرمائیے گا بچے کی پیدائش سے لے کر والدین اپنی آخری سانسوں تک بچوں کے نازو ادا اور لاڈ اٹھاتے اٹھاتے قبر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں. خود بھوکے رہ جاتے ہیں مگر اپنی اولاد کو اچھے سے اچھا کھانا کھلاتے ہیں،خود گھسے پھٹے کپڑے پہن کر اپنی اولاد کو اچھے سے اچھا کپڑا پہناتے ہیں. اچھے اچھے اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں. اپنے طور پہ اچھے سے اچھا رشتہ ڈھونڈ کے شادیاں کرتے ہیں ان کے کاروبار سیٹ کرواتے ہیں، روپیہ پیسہ دے کر اور سفارشات کروا کے نوکریاں ڈھونڈتے ہیں. ساری عمر قبر کے اندھیروں میں اندھیرا ہو جانے سے پہلے تک ہر سکھ ہر اچھی چیز ہم مشرقی والدین اپنے بچوں کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، مطلب ہم اپنے بچوں کے لیے ہی جیتے ہیں اور بچوں کے لیے ہی مرتے ہیں. یہ المیہ یا سانحہ صرف ہم مشرقی لوگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، مغرب اس معاملے میں نسبتاً آزاد ہے کوئی بھی عورت مغرب میں جب اور جونہی اور جیسے ہی حاملہ ہوتی ہے وہ حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے. اب عورت کے سارے اینٹی نیٹل چیک اپ سے ڈلیوری تک کے تمام مسائ حکومت وقت کی ذمہ داری اور جونہی بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو وہ بھی پیدا ہونے سے لیکر بالغ ہونے تک سٹیٹ کی ذمہ داری ہوتا ہے. مگر مشرق کے اطوار اور اشعار مختلف ہیں اور یہ سب سے خوبصورت اظہار محبت و مروت ہے کہ لوگ اپنے پیاروں پہ جان وارتے ہیں. مجھے محبت کے اس مظاہرے اور اپنے اس پیاری طرز معاشرت پہ بجا طور پہ مان ہے. گرچہ مغربی رنگ میں رنگنے والا ایک ٹولہ ہلکا ہلکا سر اٹھا رہا ہے لیکن مجھے وہ انتہائی بدقسمت اور کوتاہ نظر اور عقل و شعور سے پیدل ہی دکھتا ہے. خیر اس موقع پر اس انگریز عورت کے ذکرکے بغیر بات ادھوری رہ جاے گی جو اپنے چودہ سال کے بچے کو مسلمان کروانے کے لیے اسلامک سنٹر لای، بچے سے جب مذہب تبدیل کرنے کی وجہ پوچھی گءی تو بچے نے کہا کہ یہ میری والدہ کی خواہش ہے. والدہ کو بلا کے متعلقہ سوال دوہرایا گیا تو اس انگریز عورت کا جواب حیران کن تھا اس نے کہا کہ میرے فلیٹ کے سامنے ایک مسلم گھرانہ رہتا ہے اس گھر میں ایک بیمار اور بوڑھی عورت اپنے چار جوان بچوں کے ساتھ رہایش پذیر ہے میرے لیے یہ بات مذہب اسلام سے محبت اور عقیدت کے لیے بہت زیادہ ہے کہ وہ چاروں بچے اپنے کام پہ جانے سے پہلے اور وآپسی پہ اپنی ماں کا ماتھا چومتے ہیں اس کے کھانے پینے دوا دارو اور صفائی ستھرائی کا بہترین اہتمام کرتے ہیں میری دلی آرزو ہے کہ میں جب بڑھاپے کو پہنچوں اور بے یارو مددگار ہو جاوں تو میرا بیٹا بھی اسی محبت اور عقیدت سے میرا خیال رکھے. تو مذہب اسلام کی عظمت کو سلام ہے جو بڑے کا احترام اور چھوٹے سے پیار کا درس دیتا ہے اور اس اسی سالہ عیسائی عورت کو جب اس کے اپنے بیٹے اور بیٹیوں نے بوجھ جان کر گھر سے نکال دیا تو مسلمان ہمسائے اس دھتکاری ہوی بوڑھی عورت کو اپنے گھر لے آئے اور اپنی بوڑھی ماں کی طرح اس کی دیکھ بھال کی اس مسلم گھرانے کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر برلب قبر عیسائی عورت کا مسلمان ہونا بھی ایک بولتا ہوا سچ ہے کہ اسلام نے انسان کو وہ طرز معاشرت عطا کیا ہے جو اسے عمر کے ہر حصے میں جنس کی تفریق کے بغیر تحفظ فراہم کرتا ہےتو بات ہو رہی تھی والدین کے ایثار،محبت اور قربانی کی تو والدین کے پاس جو بھی اچھی سے اچھی چیز ہوتی ہے وہ اپنے بچوں کو بڑے آرام اور خوشی سے دے کر اپنی زندگی میں ہی بری الذمہ ہو کراپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں.
مگر سب سے اچھی وراثت جو ایک والد یا والدہ اپنے بچوں کو دیتے ہیں وہ ہے اچھی تعلیم و تربیت. سچی بات ہے کہ تعلیم تو آج کل بہت عام ہو چکی ہے. مگر تربیت کا جنازہ روز ہی نکلتا ہے اور سونے پہ سہاگہ اس بدتمیزی کو کونفیڈینس کا نام دے کے سراہا بھی جاتا ہے کل دوستوں کی ایک محفل میں ملک کی ایک مایہ ناز ادیبہ شکوہ کناں تھیں کہ آج کل کی تعلیم نے تربیت کا جنازہ نکال چھوڑا ہے بچے اول نمبر کے بدلحاظ اور بدتمیز ہو چکے ہیں اور ایک ماہر تعلیم فرما ریے تھے کہ جو جتنا زیادہ بد تمیز اور بد لحاظ ہے وہ اتنا ہی ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جاتا ہے، اب آپ سب مجھے بتاییے کہ ترقی کی رفتار کتنی ہونی چاہیے. علامہ اقبال کے اس شعر کی تو خوب سمجھ آتی ہے کہ
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
یاپھر
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
یہ سارے ہی شعر ایک شفاف پس منظر میں رہتے ہوئے ایک
جوان کو اچھے اور درخشاں اور معتبر مستقبل کی خودی کے ہالے میں رہتے ہوئے ستاروں جیسے تابناک مستقبل کے سہانے خوابوں
کو شعروں میں پرو کے علامہ نے امت اور امت کے جوانوں پہ پہ احسان عظیم کر دیا.
مگر مجھے اس وقت اس ہاری کی بیٹی کا ذکر مقدم ہے جسے بچپن ہی سے پڑھا ی لکھای کا شوق تھا ماں. ماسی. پھوپھی. تای اور چاچی کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود مہرانساہ کے شوق نے ہار نہ مانی اور بابا کی لاڈلی باپ سے اپنی خواہش منوانے جا پہنچی بابا نے بھی ہر طرح کی رکاوٹوں اور تلخیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوے بیٹی کو نہ صرف تعلیم دلوائی بلکہ ہر طرح کی سماجی اور صنفی نا انصافیوں کا مردانہ وار سامنا کرتے ہوئے ایک دن وہ علاقے کی اسسٹنٹ کمشنر کی سیٹ سنبھال بیٹھی تھی سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ
قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے.
مہرالنساء نے اپنے گھر، خاندان گلی. محلے اور شہر کی حالت ہی بدل دی. تعلیم اور صحت کی میسر سہولیات کو اپ گریڈ کیا اور مہرالنساء اس تمام عرصے میں اپنے مشکل وقت میں کام آنے والی پھوپھی بلقیس بیگم کے احسانات کی ہمیشہ شکر گزار رہی جنہوں نے مہرالنساء کے زمانہ طالب علمی میں کءی مواقع پہ اس کی مدد کی تھی کبھی کالا کوٹ دے کر،کبھی شال دے کر کبھی لنڈے کے سویٹر دے کر کبھی کریپ کے پرنٹڈ دوپٹے دے کر کبھی جارجٹ کے سوٹ دے کر اور کبھی روپے پیسے دے کر. بات اگر اس احسان مندی تک رہ جاتی تو بھی سب رشتے نبھ جاتے مگر رشتے اور رشتوں کی نزاکتیں اس وقت گنجلو گنجل ہو جاتی ہیں جب آپ اپنی کی ہوی نیکیوں کی رسائی اپنے کندھوں پہ بیٹھے ہوے فرشتوں کے علاوہ اپنے پیاروں کو بھی دے دیں. پھو پھو بلقیس ویسے تو من کی پیاری اور نفیس خاتون تھیں مگر انھیں ایک بری عادت تھی جو آج کل کے دور میں تقریباً نوے فیصد لوگوں کو لاحق ہےیعنی ویسے تو نیکی کی استعداد نہ رکھنا اور اگر کبھی بھولے سے کوی نیکی کر دینا تو پھر اس نیکی کا اعلان لاوڈ سپیکر پہ وقفے وقفے سے کرتے رہنا اور دوسرے بندے کو دنیا بھر کی نظروں میں زیر عتاب کر دینا اور خواہ مخواہ میں ہی دوسرے بندے کو اپنا غلام بنانے کے جتن کرتے رہنا. پھوپھو بلقیس کی ایک ہی بیٹی تھی جو شکل صورت کی تو اچھی تھی مگر ماں کے لاڈ پیار نے اسے بلا کا خود سر، ہٹ دھرم اور خودپسند بنا دیا تھا. ایک شادی ناکام ہوی تو دوسری کر دی گیی مگر شاید خاوند نامی سکھ محترمہ کے نصیبوں میں نہ تھا ویسے بی بی جی صاحب حیثیت تھیں ایک دن مہرو اپنی پھو پھو کی خیریت معلوم کرنے آی تو بی بی جی نے اسے چیزوں کا ایک پلندہ گنوا دیا جو پھوپھو بلقیس اسے وقتاً فوقتاً دیتی رہی تھیں، مہرو کو دنیا گھومتی ہوی دکھائی دی کیا اس کی قابلیت صرف اتنی ہی تھی کہ اسے ایک کالے کوٹ اور پتھر کے سیٹ کا طعنہ مارا جاتا. شاید ہر نفس جو بھی بولتا ہے اپنا آپ اور اپنے مرتبے کا تعین کرتا جاتا ہے یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک دانشمند کے چاروں اطراف احباب خوب بنے ٹھنے بیٹھے تھے، دانشور نے کہا آپ بولیے تاکہ آپ کی قابلیت کا اندازہ ہو سکے.
ثمرہ کے پہلوٹھی کےبیٹے کی شادی تھی ڈھول بج رہے تھے ہر طرف خوشیاں تھیں ثمرہ کی بہن نسیم بیگم جو گھنٹیا کی مریضہ تھیں اور کسی وقت میں اپنے وقت کی بادشاہ تھیں مگر آج کل ان کے مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے سلامی کا خرچہ اپنی بہن کو پکڑا تو بیٹھیں مگر ثمرہ بی بی نے نسیم بیگم کو موقع پہ ہی جھڑک دیا آپا سلامی کے پءسے کم دے رہی ہو، آپا جو اپنی بیماری کے باوجود بھانجے اور بہن کی خوشی میں شریک ہونے رب جانے کتنی مشکلات کے پہاڑ سر کر کے آی تھیں، بہن کے ہاتھوں اس زیادتی پہ دل مسوس کے رہ گییں، ہچکیوں کے ساتھ کسی بیگانے سے ادھار لے کر بہن کی سلامی پوری کی اور بجھے دل کے ساتھ خالی پیٹ ہی شادی والے گھر کی دہلیز پار کر گییں، کیا فائدہ اس حساب کتاب کا ان طعنے تشنوں کا جب آپ اپنی برچھی کی دھار جیسی تیز زبان سے لوگوں کے دلوں میں چھید کر دیں، جب آپ کی دولت اور ہنر سے دنیا کے لوگ مستفید ہی نہ ہو پاءیں جب دینے والا بے حساب اور بغیر گنتی کے دیتا ہے تو آپ اس حساب کتاب اور گنتی کے گورکھ دھندے میں کیوں برباد ہو رہے ہیں؟ آپ کا کالا کوٹ اور پتھر کا سیٹ آپ کو چین سے جینے کیوں نہیں دیتا اور نہ ہی آپ کسی دوسرے کو جینے دیتے ہیں ایسے لوگ ہمارے ارد گرد بے شمار ہیں تو آپ ایسے لوگوں کے شر سے کیسے بچتے ہیں مجھے ضرور بتائیے گا. سلامت رہیں آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
doctorpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International