تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کالم نگار فخر الزمان سرحدی پہ لکھے گئے مقالے کا جائزہ

Articles , Snippets , / Wednesday, July 3rd, 2024

ابو عمیر صدیقی
ادبیات کی دنیا میں بہت کم ادیبوں اور سخنوروں کو یہ اعزاز ملتا ہے کہ اُن کی ادبی خدمات کو سراہا جائے اور اُن کی ادبی صلاحیتوں پر تحقیق کر کے تخلیقی مقالے لکھے جائیں۔محترم فخرالزمان سرحدی اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جن پر مقالات لکھے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جامعہ ہری پورکی بی ایس (اُردو) کی طالبہ طیبہ بتول بی بی نے جو مقالہ بعنوان ’ فخر الزمان سرحدی کی کالم نگاری کا موضوعاتی مطالعہ (بہ تخصیص چمن کی فکر)‘ لکھا ہے وہ راقم کی رائے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا۔ کالم نگار ی میں فخرالزمان سرحدی اپنے منفرد اسلوب کا سکّہ بٹھا چکے ہیں، وہ حبّ الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں، اُنہیں ہر دم چمن کی فکر ہے جو اپنی مٹی سے اٹوٹ محبت کا اظہار ہے، صوبہ سرحد جو اب خیبر پختونخواہ کہلاتا ہے سے بے انتہا لگن کی بنا پر خود کو سرحدی کہلانے میں اپنے نام کی طرح فخر محسوس کرتے ہیں۔ چمن کے حالات کی بہتری کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر وہ مختلف موضوعات پر شائقینِ ادب کیلئے لکھتے رہتے ہیں۔ اپنے ہر کالم کا آغاز وہ ’پیارے قارئین!‘ لکھ کر کرتے ہیں یعنی اُس پیار و محبت کا اظہار کرتے ہیں جو اُن کے دل میں قارئین کیلئے ہے۔راقم کو اُن کے ہر کالم کا یہ آغاز کالم پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ شعبہ تعلیم سے منسلک رہے ہیں اور اُن کے تمام کالمز میں استاد کی ایک جھلک ضروردکھائی دیتی ہے جس کا بنیادی مقصد معاشرے کی تربیت ہی ہوتا ہے۔شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کوئی نہ کوئی ایسا مشغلہ اختیار کر لیتے ہیں جو عوام کی رہنمائی کرنے میں مددگار ہو۔سرحدی صاحب کے کالمز اِس بات کے گواہ ہیں کہ وہ اپنے اِس مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اردو ادب کے طالبعلموں کیلئے سرحدی صاحب کے لکھے گئے کالمز میں سماجی و معاشرتی، سیاسی، معاشی، تعلیمی اور تاریخی موضوعات پر خاصا مواد موجود ہے جن پر طلباء مزید تخلیقی کام کر سکتے ہیں۔آئیے مقالے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔کسی بھی نووارد تخلیق کار کی پہلی کوشش کی کامیابی ہی اُسے مزید تخلیقی کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے، اِس لحاظ سے اگر دیکھا جائے توطیبہ بتول بی بی اپنی پہلی کاوش میں کامیاب نظر آتی ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ یعنی کم عمری کے باوجود مزید تخلیقی کام کرنے کی وہ صلاحیت رکھتی ہیں۔مقالہ مکمل پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوفہ نے مقالے کی تیاری میں خاصی تحقیق اور محنت کی ہے اور جو تجربہ اِس مقالے کی تیاری میں حاصل کیا ہے وہ آئندہ مزید تحقیقی کام کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔طیبہ بتول کی تحقیق کے بعد سرحدی صاحب کی گوناگوں شخصیت کے ایسے روشن پہلو سامنے آئے ہیں جو قارئین کی نظروں سے اب تک اوجھل تھے۔ کمال یہ ہے کہ طیبہ بتول نے اپنے مقالے میں سرحدی صاحب کی زندگی کے تمام گوشوں پر اچھی تحقیق کی ہے۔ مذہبی و ادبی خاندانی پس منظر سے لے کر بچپن کی یادیں، تعلیمی قابلیت، ازدواجی زندگی، کالم نگاری کا آغاز کب اور کیسے ہوا، غرضیکہ ہرپہلو کو بخوبی بیان کیا ہے۔ گھریلو معاشی ذمہ داریوں کی بنا پر 1985 میں بطور پی ٹی سی معلم ملازمت اختیار کی لیکن ملازمت کے دوران بھی تعلیمی سفر جاری رکھا اور پرائیویٹ ذرائع سے ایف اے، بی اے اور ایم اے کی ڈگریا ں حاصل کیں، یہ معلومات اُن قارئین کا حوصلہ بڑھائیں گی جو مشکل مالی حالات کے سبب اپناتعلیمی سفرجاری نہیں رکھ سکتے۔ مقالے میں کالمز کی اقسام کے حوالے سے اور اُردو زبان میں کالم نگاری کے آغاز کی معلومات بھی دی گئی ہیں۔
مقالہ کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا اگر چند واضح غلطیاں نہ کی جاتیں، یہ ذمہ داری عمومی طور پر سپروائزر(نگران مقالہ) کی ہوتی ہے کہ مقالہ کو پیش کرنے سے پہلے از سرِ نو مکمل بنظر ِغائر پڑھا جائے۔ اُردو زبان میں مخاطب کی عزّت و احترام کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ مقالہ میں کئی مقام پر واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو پڑھتے وقت کھٹکتا ہے۔ کہیں کہیں پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے پڑھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ پہلے چند صفحات میں سے صرف تین مثالیں دے رہا ہوں جو مقالہ نگران اسسٹنٹ پروفیسر عظمیٰ شہزادی صاحبہ کیلئے ہیں تاکہ وہ آئندہ کسی بھی مقالے کی نگرانی کرتے و قت خیال رکھیں، مقصد ہر گز تنقید کرنا نہیں ہے بلکہ توجہ دلانا مقصود ہے، ہم سب اپنی غلطیوں سے ہی سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔
۱) صفحہviiiکی سترویں سطر میں ’مقام‘ کا ‘م‘ ٹائپ ہونے سے رہ گیا ہے۔
۲) صفحہ4 کی سولویں سطر میں لفظ ’یہیں‘ کی بجائے لفظ ’یہی‘ ٹائپ ہوا ہے۔
۳) صفحہ20 دسویں سطر پہلا لفظ ’قلم کاری‘ کی بجائے ’قلم قاری‘ ٹائپ ہوا ہے۔اگلی سطر میں والدہ کیلئے ’دیتی تھی‘ اور ’کرتی تھی‘ کے الفاظ لکھے ہیں، والدہ کے احترام کا تقاضا ہے کہ اُن کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا جائے ’دیتی تھیں‘ اور ’کرتی تھیں‘ کے الفاظ مناسب ہیں۔
’میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر‘


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International